ColumnJabaar Ch

تیرافیض،میرافیض .. جبارچودھری

جبارچودھری

 

نوازشریف کی پانامہ کیس میں سپریم کورٹ سے نااہلی اوروزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد ملک میں حکومت تو نون لیگ کی رہی لیکن بس نام بلکہ بدنامی کی حد تک ہی تھی۔شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے لیکن اختیار بس نام کا تھا۔میاں نوازشریف اور مریم نوازکا احتساب عدالت میں ٹرائل شروع ہوچکا تھا۔نوازشریف نے اپنی حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کیلئے جتنا کام شروع کرادیا تھا اس پر نون لیگ کو یقین تھا کہ اس مشکل وقت میں بھی اتنا کچھ کرجائے گی کہ اگلے الیکشن میں اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن یہ سوچ یایقین صرف نون لیگ کوہی تھاکیونکہ پانامہ کے ساتھ ہی نون لیگ کی توڑ پھوڑ کا ٹاسک محکمہ زراعت کو سونپا جاچکا تھا۔نون لیگ کی اپنی حکومت کے نیچے ان کے قائد میاں نواز شریف کا ٹرائل چالوتھا ۔کسی بھی حکومتی شخص کو یقین نہیں تھا کہ نوازشریف یا مریم کی اس کیس میں بچت ہوگی کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ اورمسلسل دباؤ کہ کیس کو چھ ماہ میں ختم کیا جائے اس کیس کے فیئر ٹرائل پر بحرحال اثرانداز ہورہا تھا۔
یہ وہ دن تھے جب نون لیگ ایک مسئلے سے باہر آتی تو دوسرا مسئلہ اس کے راستے کی دیواربن کر کھڑا ہوتا تھا۔نومبر دوہزار سترہ تو وہ مشکل لے کر آیا جس کا تصور بھی شاید نون لیگ نے نہیں کیا تھا۔نومبر کے آخری ہفتے میں تحریک لبیک نے اسلا م آباد اور پنڈی کو ملانے والے فیض آباد پُل پر دھرنا دے دیا۔ اس دھرنے کے ذریعے اکیلی ٹی ایل پی ہی نون لیگ کا گلا ناپنے کیلئے کافی تھی لیکن اس کو کمک پہنچانے والے بھی میدان میں آگئے ۔ شیخ رشید اور اعجازالحق کو نوازشریف سے نفرت کے اظہار کا موقع مل گیا۔عمران خان نے بھی کارکنوں کو دھرنے میں شرکت کا کہہ دیا۔نون لیگ کی حکومت کے باوجود اس کا کسی چیز پر کنٹرول نہ رہا۔وزیرداخلہ احسن اقبال کی حیثیت بس اتنی سی رہ گئی تھی کہ ان سے ٹی ایل پی کی مرضی کے ایک معاہدے پر دستخط کروانے کیلئے بلوایا گیا۔نون لیگ نے گھٹنے ٹیک دیے یا ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا گیا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔اس دھرنے کے اختتام پرایک تصویر سامنے آئی جس میں اس وقت کے ڈی جی رینجرزدھرنے کے شرکامیں کیش تقسیم کررہے تھے۔یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس کا دفاع کسی حکومتی اہلکار کے پاس تھا ہی نہیں۔ اس دھرنے کے خاتمے کیلئے جو چھ نکاتی معاہدہ سامنے آیا اس معاہدے پر حکومت کی طرف سے احسن اقبال، ٹی ایل پی کی طرف سے مولانا خادم رضوی کے دستخط تھے ۔اس معاہدے پر ایک اور دستخط بھی تھے جن کو دیکھ کر سب لوگ حیران تھے ۔ یہ دستخط میجر جنرل فیض حمید کے تھے۔
فیض حمید نے یہ دستخط بطورگارنٹر کیے تھے۔خیر دھرنا ختم ہوگیا۔ نون لیگ نے تھوڑی دیر کیلئے سکھ کا سانس لیا۔لیکن یہ سانس بس کہنے کو ہی سُکھ کا تھا کہ دوہزار اٹھارہ شروع ہوا تو ملک میں الیکشن کا ماحول بننا شروع ہوا۔ نون لیگ نے دھڑا دھڑ اپنے لگائے بجلی منصوبوں کے افتتاح شروع کردیے ۔ملک میں بجلی کی کمی پوری ہونا شروع ہوگئی ۔الیکشن سے چھ ماہ پہلے تک لگ رہا تھا کہ شاید نون لیگ دوبارہ اقتدارمیں آجائے گی لیکن کسی کو اور ہی منظورتھا۔ الیکشن کے پہلے کے پانچ چھ ماہ کی کہانی بھی ایک الگ ہی کہانی ہے۔اچانک نون لیگ میں توڑپھوڑ شروع ہوگئی۔جنوبی پنجاب میں ہلچل شروع ہوئی۔ جوگر گروپ تیار ہوگیا۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے نعرے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک جنوبی صوبہ محاذ بن گیا۔جنوبی صوبہ محاذ جب بنا تو اس کی الگ حیثیت اور شناخت تھی لیکن پھر جس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا وہ پورا کرنے کیلئے اس محاذ کو پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنادیا گیا۔
ایک طرف یہ سیاسی انجینئرنگ چلی تو دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار مورچہ بند ہوگئے۔ نیب کا سورج سوا نیزے پرلایا گیا۔(میں کسی کو سچا یا جھوٹا،کرپٹ یا ایماندارہونے کا سرٹیفکیٹ دینے کی پوزیشن میں نہیںہوں لیکن جس انداز سے یہ سب کچھ ہورہا تھا وہ غیر معمولی تھا)وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف چھپن کمپنیوں کا کیس، شہباز شریف کے قریبی بیوروکریٹ احد چیمہ کی گرفتاری تودوسری طرف نوازشریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کی گرفتاری۔لاہور رجسٹری میں جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی اور نیب کی کارروائیاں کیا کمال کا تال میل تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ نون لیگ جو اگلا الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں تھی اس کو اپنی جان کے لالے پڑگئے۔اس کی ساری توانائی خود کو بچانے میں لگ گئی ۔الیکشن ہوئے لیکن نتائج پھر بھی دوستوں کی مرضی کے خلاف آنا شروع ہوئے توپراجیکٹ مکمل کرنے کیلئے آرٹی ایس کو بٹھانا ہی پڑا۔یوں پراجیکٹ عمران تکمیل کو پہنچا لیکن اس کو چلانا ابھی باقی تھاجو آخرکار چل نہ سکا۔
الیکشن سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیض آباد دھرنے کا ازخودنوٹس لے چکے تھے۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں چلنے لگاتو بہت سی مخفی چیزیں سامنے آنے لگیں۔قاضی فائزعیسیٰ نے اس کیس کا فیصلہ چھ فروری دوہزار انیس کو سنایا۔اس کیس کے فیصلے میں انتہائی جامع انداز میں حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی ناکامیوں کا ذکر کیا اور مستقبل کی راہ بھی متعین کی ۔جسٹس صاحب نے خفیہ ایجنسیوں کے کرداراور دائرہ کار پر بھی سوال اٹھائے۔جب یہ فیصلہ آیا توعمران خان وزیراعظم تھے ۔ ان کی حکومت کو یہ فیصلہ بالکل بھی پسند نہ آیا۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔وہ کیس ابھی بھی شاید فائنل فیصلے کا منتظر ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے فیصلہ دیا تو خود ان کے ٹرائل کا فیصلہ کردیا گیا۔جب فیض آباد دھرنا ہوا تو میجر جنرل فیض حمید صاحب ڈی جی کاؤنٹرٹیررازم (ڈی جی سی) تھے لیکن جب اس کیس کا فیصلہ آیا توفیض حمید ڈی جی آئی ہوچکے تھے۔اس کے بعد وزیراعظم عمران خان صاحب سے ان کی قربت تو سب ہی جانتے ہیں ۔ان کے بارے میں سیکڑوں کہانیا ں ہیں۔ جب وہ آفس میں تھے تو ان کی شخصیت کسی دیومالائی کردارسے کم نہیں تھی۔عمران خان ان کو آرمی چیف بھی بنانا چاہتے تھے اور اپنے ساتھ ڈی جی آئی بھی رکھنا چاہتے تھے ۔ وہ خود بیان کرچکے ہیں کہ جنرل فیض کے تبادلے پر ان کے اختلافات شروع ہوئے جو ان کی حکومت تک لے کر ختم ہوئے۔حالات نے پلٹا کھایا اورعمران خان اقتدار سے باہر آگئے اورجنرل فیض بغیر سپہ سالار بنے ریٹائرہوگئے۔
بطورڈی جی سی ،ڈی جی آئی یا کورکمانڈروہ جس بھی رول میں رہے جنرل باجوہ ان کے باس رہے۔ اب دونوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک عجب صورتحال بن چکی ہے۔عمران خان جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرررہے ہیں لیکن فیض حمید پر مکمل خاموشی ہے ۔دوسری طرف مریم نوازہیں جو فیض حمید کا کورٹ مارشل چاہتی ہیں لیکن جنرل باجوہ پر مکمل خاموش ہیں۔دونوں اپنے اپنے ملزم کو سزا دلوانا چاہتے ہیں ۔جنرل باجوہ صاحب تو بہت سے صحافیوں سے خود مل کر اپنی طرف کی کہانی سناچکے ہیں۔بہت سی کہانیاں دوسروں کی زبانی چھپواچکے، بلواچکے ۔اب جنرل فیض حمید کو تپش محسوس ہورہی ہے تو وہ بھی اپنی کہانی سامنے لانے کی کوشش میں ہیں ۔مختلف ذرائع سے ابتدائی بات جنرل فیض یہ سامنے لائے ہیں کہ نون لیگ کو توڑنے یا انکی حکومت کو نقصان پہنچانے میں ان کا کوئی کردارنہیں ۔ ان کا کہناہے کہ جب نون لیگ کی حکومت تھی تو وہ ایک میجر جنرل تھے اور کوئی میجر جنرل کسی کی حکومت ختم نہیں کرسکتا اور آرمی میں فیصلے چیف کے ہوتے ہیں ۔اگر واقعی نون لیگ کے خلاف کسی نے کچھ کیا تھا تو کیا فیض صاحب اپنا فیض اب سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے سرڈالیں گے؟ملک میں حالات انتہائی گرد آلودہیں ۔الیکشن آنے والے ہیں اور ایک بار پھر اس گرد میں اضافہ ہی ہوگا۔ ماضی کے سبھی کردار بولیں گے اور اپنی طرف کی کہانی سامنے لائیں گے لیکن ان کی کہانی پر شاید اس وقت تک یقین مشکل ہوگا جب تک وہ خود سامنے آکرٹیبل کی دوسری طرف بیٹھ کرنہ بتائیں کہ دوہزار اٹھارہ میں کیا ہواتھا اورکس کے کہنے پر ہواتھا ۔چاہے وہ جنرل باجوہ ہوں، ثاقب نثار ہوں یا پھر جنرل فیض۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button