ColumnImtiaz Aasi

آئی ایم ایف اقدامات کرپشن میں رکاوٹ؟ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

آئی ایم ایف اقدامات کرپشن میں رکاوٹ؟

ہمارا ملک معاشی اور داخلی امن وامان جیسی صورتحال کا شکار ہے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے جن اقدامات کی اشد ضرورت تھی اب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے حالانکہ خیبر پختونخوا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید فرنزک لیباٹری اور سیف سٹی پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی۔اے پی ایس کے سانحہ کے بعد ان اقدامات کا ہوناضروری ہو گیا تھا نہ کہ پولیس لائنز جیسے دالخراش واقعہ کا انتظار ضروری تھا۔تعجب ہے جب کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو ممکنہ حفاظتی اقدامات یاد آتے ہیں ۔
آئی ایم ایف کی نت نئی شرائط نے حکومت اور عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔جب تک آئی ایم ایف سے مالی معاملات کا سلسلہ حتمی نتائج تک نہیں پہنچتا کوئی ملک ہمیں قرض نہیں دے گا اور نہ ہی ڈونرز اداروں سے مالی امداد کی توقع کی جا سکتی ہے۔حکومت کی ناقص کارکردگی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ڈالر باہر سے نہیں آرہے تھے تو کم ازکم افغانستان کی طرف غیر قانونی طو ر پر ڈالر کے جانے کا راستہ بند ہونا چاہیے تھا۔ آئی ایم ایف کو یہ شرط رکھنا پڑی کہ تمام افسران معہ اپنی فیملی اندرون اور بیرون ملک اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہوںگے۔
ہم سمجھتے ہیں آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں کو وفاق سے ملنے والے فنڈز کے اخراجات کا حساب مانگ کر ٹھیک کیا ہے تاکہ صوبائی حکومتوں کو ملنے والے فنڈز کے صحیح استعمال کا پتا چلایا جا سکے۔ ہمیں شہباز شریف سے لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بات انہوں نے درست کہی ہے کہ خیبر پختونخوا کو وفاق سے ملنے والے چار سو سترہ ارب روپے کہاں خرچ ہوئے ہیں؟یہ اچھا ہوا اب آئی ایم ایف خود حساب کتاب پوچھ لیا کرے گا ورنہ تو سیاست دانوں کو حساب کتاب دینے سے چڑ ہوتی ہے۔ افسوناک پہلو یہ ہے کہ جو اقدامات ہمیں خود کرنا چاہیے تھے وہ آئی ایم ایف کے حکم پر کر نا پڑ رہے ہیں۔یہ بات بھی باعث شرم ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ کرپشن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس کی تازہ ترین مثال نیب قوانین میں ترامیم کرکے کرپشن مقدمات ختم کئے گئے ہیں۔آئی ایم ایف نے سری لنکا کو عسکری تعداد میں کمی کرنے کی شرط رکھی ہے اللہ نہ کرے کہیں ہمیں ایسی شرائط سے گذرنا پڑے ۔ہمارا ملک تو عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے ہمیں تو عسکری تعداد میں اضافے کی بہت ضرورت ہے۔اب حکومت نے بے نامی ایکٹ 2017 کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا گذشتہ حکومتوں میں اس ایکٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو جاتا تو حالات میں کچھ بہتری آسکتی تھی ۔
ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے قانون تو بن جاتے ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا ۔کسی اور ملک میں کبھی ایسا ہوتا دیکھا ہے کہ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے؟ سیاست دان ہوں یا کوئی اور، سب بڑی بڑی جائیدادیں بنانے میں لگے ہیں ۔ملک کی حالت پر رونا آتا ہے کیا ہمارے اکابرین نے اس ملک کو لوٹ مار کیلئے بنایا تھا؟آئی ایم ایف کے سامنے اب جو گھٹنے ٹیکنے پڑ رہے ہیں یہ کام پہلے ہو جاتا توملک کی بہتری نہیں تھی؟شرم تو ہمیں آتی نہیں، دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ہم آپس میں دست وگریبان ہیں۔وفاقی حکومت بے نامی ایکٹ پر عمل درآمد کیلئے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور بے نامی مقدمات کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔
دراصل ہم جن مشکلات کا شکار ہیں ان میں سب سے بڑی رکاوٹ قانون کی حکمرانی ہے،جن معاشروں میں بڑوں اور چھوٹوں کیلئے قانون میں تفاوت ہو وہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرسکتے بلکہ تباہی اور بربادی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ہم معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے کہ دہشت گردی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ہم جس مشکل وقت سے گذر رہے ہیں سیاسی رہنمائوں کو ایک دوسرے سے شکوے اور شکایات سے گریز کرکے ملکی سلامتی کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔چلیں نیب مقدمات تو سیاست دانوں کے خلاف تھے جو انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ختم کرا لیے ہیں ۔ سیاسی رہنمائوں کے خلاف معمولی معمولی باتوں پر مقدمات در ج ہو رہے ہیں۔سیاسی جماعتیں صوبوں میں اپنی حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات بنا رہی ہیں۔ایک عجیب ماحول ہے ۔یہ تو عدالتوں کا بھلا ہو وہ قانون کو دیکھتے ہوئے سیاست دانوں اور صحافیوں کے خلاف مقدمات ختم کر رہی ہیں ورنہ سیاست دانوں پر ہو تو لوگ جیلوں میں پڑے رہیں۔ ہم جس طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں سیاسی رہنمائوں کو سر جوڑنے کی ضرورت ہے، اقتدار آنے جانے والی چیز ہے ملکی سا لمیت بہت ضروری ہے جس کیلئے ہمیں مل جل کر مسائل سے نکلنے کی سعی کرنی چاہیے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ہم مزید مشکلات کی دلدال میں پھنستے چلے جائیںگے۔حکومت نے آل پارٹیز کانفرس بلائی تھی تو تحریک انصاف کوشرکت کرنی چاہیے تھی ۔چلیں عمران خان تو پوری طرح روبصحت نہیں ہیں پی ٹی آئی کے کسی نمائندے کو ا س کانفرنس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں قرآنی تعلیمات سے روگردانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان پر من وعن عمل پیرا ہونے میں عافیت ہے۔حق تعالیٰ نے اپنی کتاب میں چودہ سو برس پہلے کہہ دیا تھا کہ یہود اور ہنوز مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو کر پیش آرہی ہیں ۔کاش ہم سب قرآنی تعلیمات پر عمل کر رہے ہوتے تو ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے ان سے ہم محفوظ رہ سکتے تھے۔دیر آید درست آید کے مصدق ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کو معمولات زندگی بنائیں گے تو یہ بات یقینی ہے ہماری تمام مشکلات ختم ہو جائیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button