
منصف اور انکی حسِ انصاف ۔۔ روشن لعل
روشن لعل
منصف اور انکی حسِ انصاف
کالم کے عنوان میں شامل دو لفظوں کا مرکب ’’حس انصاف‘‘ غیر مانوس ہونے کے باوجود یہ سوچ کر استعمال کیا گیا ہے کہ اگر ’’حس مزاح‘‘ جیسا مرکب مستعمل ہوسکتا ہے تو پھر ضرورت کے تحت ’’حس انصاف‘‘ سے کام کیوں نہیں چلایا جاسکتا۔ بصارت، لمس، بو ، ذائقہ اور سماعت کو محسوس کرنے کیلئے تومختلف انسانی اعضا کام آتے ہیں مگر کسی بھی انسان میں حس مزاح کی موجودگی خاص قسم کے میلان طبع کی مرہون منت ہوتی ہے۔حس مزاح کی طرح حس انصاف کا تعلق بھی انسان کی اندرونی وارداتوں سے ہے۔ انصاف کی طلب اور فراہمی کے احساسات خاص قسم کا ادراک اور شعور اجاگر ہونے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔یہ بات طے شدہ ہے کہ حس مزاح کے بغیر نہ کوئی مزاحیہ اداکار اورنہ ہی مزاح نگار بن سکتا ہے ۔ یہ بات انتہا درجے کا مذاق محسوس ہوتی ہے کہ حس مزاح کے بغیر کسی کیلئے مزاح کی دنیا میں نام اور مقام پیدا کرنا تو کسی صورت ممکن نہیں مگر حس انصاف کے بغیر یہاں منصف بننا ہی نہیں بلکہ منصفی کے اعلیٰ ترین درجوں پر فائز ہونا بھی عین ممکن ہے۔
وطن عزیز میں منصفی کے اعلیٰ مراتب پر فائز رہ چکے لوگ حس انصاف سے کس قدر عاری تھے اس کا احساس ایک سابق منصف اعلیٰ کے اس بیان سے ہوا جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ سیتا وائٹ کا کیس ان کے سامنے آیا ہی نہیں تو اس معاملے میں وہ کیسے یہ فیصلہ دیتے کہ عمران خان صادق و امین نہیں ہیں۔ جس کیس میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا گیا گو کہ وہ سیتا وائٹ کا کیس نہیں تھا مگر اس کیس سے متعلقہ مبینہ تفصیلات سے کئی لوگوں نے یہ اخذ کر لیا ہے کہ مقتدر حلقوں کی کمال مہربانیوں اور خاص قسم کی عدالتی انجینئرنگ کی بدولت ایک ہی طرح کے دو مختلف مقدمات میں عمران خان کوصادق و امین جبکہ جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیاگیا۔ اس حوالے سے میڈیاکی کئی گھنٹوں پر محیط نشریات میں سابق منصف اعلیٰ پر بیرونی دبائو قبول کر تے ہوئے ساز باز کے تحت اپنے فیصلے کرنے کے جو الزامات عائد کیے گئے ، ان الزامات کے جواب میں سابق منصف اعلیٰ کو کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ الزامات لگانے والوں پر ہتک عزت کا دعویٰ کرتے مگر انہوں نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ان کے سامنے عمران خان کو نااہل قرار دینے کیلئے جو تین نکات رکھے گئے تھے ، وہ کیوں کہ اطمینان بخش نہیں تھے اس لیے انہوں نے عمران کو صادق وامین قرار دے دیا۔ سابق منصف اعلیٰ کے مذکورہ بیان کو انصارعباسی، جاوید چودھری اور شاہزیب خانزادہ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ترازو میں رکھنے سے کس کا پلڑا بھاری اور کس کا ہلکا محسوس ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے۔ اس تحریر کا موضوع کیونکہ سابق منصف اعلیٰ کی باتوں کے وزن سے نہیں بلکہ ان کی حس انصاف سے متعلق ہے اس لیے یہاں صرف یہ بتایا جائے گا کہ انہوں نے عمران خان کو صادق و امین قرار دیتے وقت جب سیتا وائٹ کے معاملے کو نظرانداز کیا تب وہ اپنی نظریں اور کہاں کہاں مرکوز کیے ہوئے تھے۔ سابق منصف اعلیٰ کی نظریں جہاں مرکوز رہیں اس کی بے شمار مثالوں میں چند ایک یہاں پیش کی جارہی ہیں ۔
یہ بات کسے یاد نہیں ہوگی کہ سیتا وائٹ کے معاملے سے صرف نظر کرنے والے سابق منصف اعلیٰ اپنے عہدے کے وقار کو اپنے ہی پیروں تلے روندتے ہوئے ایک ڈرگ انسپکٹر کی طرح یہ دیکھنے کیلئے ہسپتال میں داخل شرجیل میمن کے کمرے میں پہنچ گئے تھے کہ وہاں موجود بوتلوں میں کیا رکھا ہوا ہے۔ سابق منصف اعلیٰ کو عمران خان پر عائد سیتا وائٹ کے مشہور زمانہ الزامات تو نظر نہیں آئے مگر وہ اپنا تمام تر عدالتی کام چھوڑ کر فرانس سے لائے گئے قیمتی زرمبادلہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے عالمی شہرت یافتہ ڈریس ڈیزائنر محمود بھٹی کا ہسپتال دیکھنے اچانک ڈیفنس لاہور پہنچ گئے تھے۔ یہ کام کرتے ہوئے انہوں نے کس حد تک حس انصاف کا استعمال کیا اس کا اندازہ محمود بھٹی کے ان خیالات سے کیا جاسکتا ہے جن کا اظہار وہ اکثر سابق منصف اعلیٰ کا نام لے کر کرتے رہتے ہیں۔ اپنی جس حس انصاف کو استعمال کرتے ہوئے سابق منصف اعلیٰ نے محمود بھٹی کے ہسپتال میں جا کر اس کی بے عزتی کی اسی حس انصاف کے تحت کئی معروف صحافیوںکے استادکہے جانے والے حسین نقی کے خلاف بھری عدالت میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے۔ سابق منصف اعلیٰ نے اسی قسم کے رویے کا مظاہرہ عطاالحق قاسمی کے ساتھ بھی کیا تھا۔
1960 کی دہائی میں مجیب الرحمٰن پر مقدمات تو مشرقی پاکستان میں بنائے گئے مگر انہیں نہ صرف مغربی پاکستان کی جیلوں میں رکھا گیا بلکہ مقدمات کی سماعت بھی مغربی حصے کی عدالتوں میں ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان میںمجیب الرحمٰن کے مغربی پاکستان میں قید رکھے جانے کو بھی ایک وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ جو کچھ یہاں مجیب الرحمٰن کے ساتھ کیا گیاتھا،سابق منصف اعلیٰ کے حکم پرمیگا منی لانڈرنگ نام کے کھوکھلا ثابت ہوچکے کیس میں وہی کچھ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہوا۔ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں پر کیس تو کراچی میں بنائے گئے مگر ان کی تفتیش اور سماعت کے دوران ملزموں کو قید اسلام کی جیلوں میں رکھا گیا جس سابقہ منصف اعلیٰ نے پے درپے از خود نوٹس لیتے ہوئے وہ کچھ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جو کچھ کرنے سے یہ ملک پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا اسے طے شدہ مذہبی معیار کے باوجود یہ پتا نہ چل سکا کہ جس بندے کو وہ صادق و امین کا سرٹیفکیٹ عطا کر رہا ہے اس پرشرعی حد بندیوں کی خلاف ورزی کے کس حد تک سخت الزامات ہیں ۔
سطور بالا میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حس انصاف سے عاری لوگ یہاں عدل کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھ کر کیا کیا گل کھلاتے رہے۔ ہمارے منصف کیسے تھے اور کیسے ہیں اس بارے میں مزید کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں مگر اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ کسی منصف کو اصل میں ہونا کیسا چاہیے۔اس حوالے سے منصفوں کیلئے طے شدہ ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ انہیں ہر صورت میں اعلیٰ اخلاقی معیارات پر عمل کرتے ہوئے انصاف فراہم کرنا چاہیے۔ انصاف کی فراہمی کا بنیادی تعلق اس کی طلب سے ہے۔ کسی بھی سماج میں انصاف فراہم کرنے والے منصف گنے چنے لوگ جبکہ طالب بے شمار ہوتے ہیں۔ کسی بھی منصف کے اعلیٰ اخلاقی معیار کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی پر معمور گنے چنے چند لوگوں میں شامل ہونے کے باوجود کبھی بھی خود کو انصاف کے طالب عام لوگوں کی گنتی سے باہر تصور نہ کرے۔ کوئی منصف اس وقت تک درست فیصلہ کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ خود کو انصاف کا طالب نہ بنائے رکھے ۔ حس انصاف سے عاری ہمارے منصفوں میں خال خال ہی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جنہیں صحیح معنوں میں انصاف کا طالب سمجھا جاسکے۔