Editorial

جنرل عاصم منیر سے کاروباری شخصیات کی ملاقات

 

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پیر کو ملک کی 10؍ سرکردہ کاروباری شخصیات کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی میں یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان مشکل معاشی حالات سے کامیابی سے باہر نکل آئے گا، ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے، ملک ترقی کرے گا اور ہم ایک خوشحال قوم بن کر ابھریں گے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ملاقات کے حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن آرمی چیف پوری ملاقات کے دوران پرامید نظر آئے اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پا لیا جائے گا۔ بلاشبہ حکومتی معاشی ٹیم کی کاروباری طبقے تک رسائی اور جوابدہی معاشی سرگرمیوں کے لیے مثبت عمل ہے، ایسی نشستوں سے کاروباری شعبہ اور حکومت کے درمیان معاملات کھل کر سامنے آتے ہیں اور دونوں جانب سے اپنے اپنے مسائل اور اُن کا حل پیش کیا جاتا ہے لیکن ذرا رُک کر سوچنے کی بات ہے کہ کاروباری شخصیات جمہوری شخصیات یعنی حکومت ذمہ داران سے زیادہ پاک فوج کے سپہ سالار سے ہی کیوں بات کرنے کو اہمیت دیتی ہیں کیا اِس کی وجہ سیاسی شخصیات پر اُن کے اعتماد کا فقدان ہے یا کچھ اور ؟ بغور دیکھا جائے تو ہمیشہ سے ہی سیاست دان مختلف مواقعوں پر ایک ہی موقف کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں اِس کی وجہ موقع کی مناسبت ہوتی ہے جیسا موقعہ ہوا ویسا ہی موقف، اور ان کی یہی ادا کاروباری طبقے کے لیے پریشان کن ہوتی ہے۔ بلاشبہ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کاروباری افراد سے کہا ہے کہ وہ پرعزم اور پراعتماد رہیں۔ قوم پر مشکلات آتی ہیں اور ہمیں مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن بدتر حالات کو ہم پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور ہم قائم و دائم رہیں گے اور اِس ضمن میں جنرل عاصم نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا اور شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان موجودہ امتحان میں کامیاب ہو جائے گا لیکن دیکھا جائے تو چند روز قبل ہی ایک اہم وفاقی وزیر عوامی اجتماع سے خطاب میں دعویٰ کررہے تھے کہ ہم عملی طور پر ڈی فالٹ کرچکے ہیں، پھر موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کا رویہ اور مجموعی معاشی کیفیت بھی اُن کے اِس موقف کی اگر عکاسی نہیں کرتے تو کم ازکم ازکم اُس کے قریب قریب ہے کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف نے شرائط پہ شرائط منوانے کے باوجود ہمیں ہوا میں لٹکایا ہوا ہے تو دوسری طرف داخلی حالات بھی ایسے نظر نہیں آرہے جن سے کاروباری طبقے اور عام پاکستانی کو حوصلہ ملے کہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیے جارہے ہیں کیونکہ حکومت کے بعض اقدامات اُن کے اپنے ہی قول کی نفی کرتے ہیں جس کا بڑا اور واضح ثبوت وفاقی وزیروں، مشیروں کی تعداد ہے۔ اگرچہ پنجاب میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کردیا ہے لیکن کیا اِن انتخابات کے بعد سیاسی تنائو میں کمی ہوگی یا اِس کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوگا کیونکہ کوئی بھی فریق نتائج ماننے کو تیار نہیں ہوگی۔ بہرکیف سیاسی شخصیات کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ملک کا کاروباری طبقہ جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، وہ اُن کی بجائے عسکری قیادت پر ہی اعتماد کرتا ہے، ذرائع ابلاغ کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ نے پہلے خود اِن کاروباری شخصیات سے ملاقات کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے جس کے بعد جنرل عاصم منیر کی میزبانی کو ملک کے بڑے صنعتکاروں کو قبول کیا اور اُن کی بات اطمینان سے سنی، دوسری طرف دیکھا جائے تو قومی سلامتی کا معیشت سے قریبی تعلق ہے۔ امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے ملکی اقتصادی سرگرمیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز تو ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں پیش کررہی ہے جس کے بعد اب ویسے خطرات ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتے جن کا ہمہ وقت احتمال رہتا تھا یا ماضی میں ہم وہ خونریزی دیکھ چکے ہیں مگر دوسری طرف دیکھیں تو امن و امان کی صورتحال قابو میں ہونے کے باوجود معاشی سرگرمیاں ویسے نہیں ہورہیں جیسی ہونی چاہئیں تھیں تو اِس کی وجہ سیاسی عدم استحکام، معاشی پالیسیوں میں عدم استحکام اور سیاسی معاملات ہیں، کیونکہ ہر لمحے یہی کھٹکا موجود رہتا ہے کہ آئی ایم ایف کی کوئی نئی شرط کاروباری طبقے اور عوام پر لاگو نہ کردی جائے، جب ایسی معاشی بے یقینی کی صورتحال ہو تو کون سا شعبہ ترقی کرے گا۔ بلاشبہ حکومتی معاشی ٹیم نے کاروباری طبقے کو حکومت کی جانب سے کاروبار میں آسانی کے لیے متعارف کیے گئے اقدامات اور ملکی معیشت کے استحکام کی کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج سے آگاہ کیاہوگا مگر پھر وہی سوال کہ کیا اِن نامساعد معاشی حالات میں صنعت کا کوئی بھی شعبہ ترقی کرسکتا ہے جبکہ کاروباری ماحول میں بہتری کے لیے کئی ایک اقدامات ضروری ہیںاور کاروباری شعبہ اِس کے لیے ہمیشہ سے آواز اٹھاتا رہا ہے مگر وعدہ سے آگے معاملہ نہیں بڑھتا۔اسی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ آرمی چیف سے کاروباری افراد نے سوال کیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو ایک جگہ بٹھانے کے لیے کوشش کیوں نہیں کر رہی تاکہ ملک کو درپیش سنگین چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے کیونکہ قوم توقع کرتی ہے کہ فوج معاشرے میں مزیدافرا تفری اور تفریق کی اجازت نہیں دے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی کے معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھاکر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سیاسی عدم استحکام نہ تو اُن کے اپنے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے مفاد میں، لہٰذا ماضی کے دائو پیچ موجودہ حالات میں آزمانا اب بے سود ہوگا، ملک و قوم کو سنگین بحرانوں کا سامنا ہے لیکن اِس کے باوجود سیاسی تنائو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، دیکھا جائے تو کاروباری طبقہ ہی نہیں بلکہ عام شہری بھی سیاسی کشمکش سے نہ صرف نالاں ہیں بلکہ اِس کے فوری اختتام کا بھی مطالبہ کررہے ہیں لہٰذا بلاتاخیر حقیقی مسائل اور بحرانوں کی جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، سیاسی لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ عوام کب تک ایسی چیزیں برداشت کریں گے جو اُن پر اور ریاست پر دہائیوں سے گراں گذرتی رہی ہیں۔ بہرکیف ہمیں یقین ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملک کی اہم کاروباری شخصیات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور حکومت کی معاشی ٹیم اُن تمام وعدوں پر من و عن عمل کرے گی جن کا اِس ملاقات میںیقین دلایاگیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button