ColumnNasir Sherazi

اونچی ایڑھی والی جوتی .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ایک طرف سیاسی انتشار اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے تو دوسری طرف اقتصادی بحران قابو سے باہر ہوچکا ہے، دونوں نے مل کر قوم کے ہر فرد کو خلجان کا شکار کردیا ہے، ملک بھر میں جھوٹ، مکروفریب کا بازار گرم ہے۔
عمران خان پرستر کے قریب مقدمات درج ہوچکے ہیں، جن میں چھ مقدمات خاصی سنگین نوعیت کے ہیں، ان کا سیاسی کیریئر دائو پر ہے، عدالتیں انہیں بلاتی ہیں وہ ان کے روبرو پیش ہونے سے گریزاں ہیں، ان کے قانونی مشیروں نے ان کے کان میں کہہ رکھا ہے کہ وہ عدالت گئے تو فرد ِ جرم عائد ہوجائے گی، جس کے بعد مقدمات تیزی سے اپنا سفر طے کریں گے، پس جس قدر ممکن ہو حاضری سے فرار حاصل کریں، اپنے زمانہ اقتدار میں وہ قانون اور اس کی بالادستی کے سبق دیا کرتے تھے لیکن اپنے مقدمات کا فیصلہ سڑکوں پر عوامی عدالتیں لگاکر کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں، انہیں عدالت کے روبرو ہونا پڑے گا، انہوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں شاید سوچا بھی نہ تھا کہ ان پر یہ وقت بھی آسکتا ہے، حالانکہ برادر عزیز شعیب بن عزیز عرصہ دراز قبل بتاچکے تھے کہ ’’اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں‘‘ یہ باتیں تو کتابوں سے قربت رکھنے والوں کی سمجھ میں آتی ہیں، کھیل کے میدانوں میں زندگی گذارنے والے ان کا ادراک نہیں کرسکتے۔ خان کی حفاظت کے لیے ان کے وومن ونگ سے تعلق رکھنے والی خواتین رات گئے تک موجود رہتی ہیں لیکن جو اپنے پیٹ کی بات اُگل دیتی ہیں اُس کی حفاظت نہیں کرسکتیں، وہ خان کی کتنی اور کب تک حفاظت کرسکیں گی یہ تو بالکل سامنے کا سوال ہے۔
نئے آرمی چیف کے تقرر کے فوراً بعد سے ان سے ملنے کے جتن جاری تھے، اہم شخصیات کے ذریعے بھیجے پیغامات کا جواب نہ آیا تو میڈیائی بیانات کے ذریعے پیغام پہنچایاگیا، صاف جواب کے باوجود کوششیں جاری رہیں، صحافیوں سے متعدد ملاقاتوں میں عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ چیف سے مل کر غلط فہمیاں دور اور ساتھ مل کر کام کرنے کی بات کرنا چاہتے ہیںلیکن دوسری طرف والے آمادہ نہ ہوئے ، وہ خوب جانتے تھے کہ اس ملاقات کو کیا رنگ دیا جائے گا، پس واضح کردیا گیا کہ ہمارا سیای معاملات سے کوئی تعلق نہیں، سیاست دان آپس میں مل بیٹھیں اور جو کرنا چاہتے ہیں خود کریں۔ اس جواب سے سیاسی ارمانوں میں اوس پڑ گئی ہے جو موسمی حدت کے باوجود اپنی جگہ پر جمی ہے، اس کے تحلیل ہونے کا دور ، دور تک کوئی امکان نہیں۔
سیاسی انتشار کے اثرات اقتصادی حالات پر تیزی سے اثر انداز ہوئے، وزیر خزانہ اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے، نئی سحر کے جلد نمودار ہونے کی خبریں سناتے رہے لیکن کوئی ان کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں، اس کی بڑی وجہ سرکاری ترجمانوں کے وہ بیانات ہیں جن کے مطابق پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے، اسحق ڈار کہتے ہیں ایسا نہیں تو انہیں خواجہ آصف کی اِس حوالے سے متعدد مرتبہ کہی بات سامنے رکھی جاتی ہے۔
آخری حل کے لیے وزیرخزانہ نے کاروباری دنیا کی چیدہ چیدہ شخصیات کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی تو کوئی ان کی بات سننے پر آمادہ نہ ہوا، کہاگیا ان کی کہانیوں میں اب کوئی جان باقی نہیں ان کی باتیں سننا وقت کا ضیاع ہے، ایسے میں آرمی چیف سے مدد کی درخواست کی گئی، کاروباری برادری ان کی گارنٹی چاہتی تھی یوں اہم کاروباری شخصیات وزیر خزانہ کی بات سننے اور آرمی چیف سے ملاقات کرنے کے لیے آئیں۔وزیر خزانہ نے وہی پرانی باتیں دھرائیں کہ آئندہ دو ماہ میں صورت حال بہت بہتر ہوجائے گی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی حوصلہ دلاتے ہوئے کہا کہ قوموں کی زندگی میں مشکلات آتی ہیں۔ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جائے تو مشکلیں ختم ہوجاتی ہیں، اسی ملاقات میں انہوں نے سیاسی روابط کے حوالے سے تمام ابہام دور کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی طرف سے متعدد مرتبہ ملاقات کی خواہش کی گئی ہے لیکن ان کا جواب وہی ہے جوروز اول دیاگیا تھا کہ وہ اپنی توجہ فوجی معاملات پرمذکور رکھنا چاہتے ہیں، سیاست دان اپنے مسائل خود حل کریں۔ بزنس مین کمیونٹی سے ان کی ملاقات اور خطاب کے فوراً بعد تحریک انصاف کے ایک راہنما نے فرمایا کہ ہم نے ایسی کسی ملاقات کی درخواست نہیں کی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملاقات اور مذاکرات میں اخلاص کس درجے کا ہوسکتاتھا۔
ماضی قریب میں سیاسی اور قانونی ایوانوں میں بیٹھنے والوں پرگردش ایام بھاری پڑ رہی ہے۔ بابا رحمتا ایک زمانے میں ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتا تھا، آج خاک بہ سر ہے، آڈیولیک کے بعد اس کی مشکل میں اضافہ ہوگیاہے، اس کی کوشش ہے کہ پروں پرپانی نہ پڑے لیکن بھری برسات سے کون کب تک بچ سکتا ہے، سوشل میڈیائی دانشوروں کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب دینے کے لیے ایک قومی ٹی وی چینل کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن یہ انٹرویو گلے پڑ گیا ہے، بابا رحمتا صفائیاں دیتا پھرتا ہے مگر کوئی اس کی سننے کو تیار نہیں۔
بابا جی نے ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان سے غلط فیصلے ہوئے ہیںلیکن انہوں نے سب کچھ بدنیتی سے نہیں نیک نیتی سے کیا ہے وہ ایک کتاب لکھنے اور اس میں سچ لکھنے کا کہہ رہے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کتاب ان کے مرنے کے بعد منظر عام پر آئے گی۔ وہ کیا اور کتنا سچ لکھیں گے جس کا سامنا اپنی زندگی میں نہیں کرسکتے، وہ یہ تمام سچ اپنی زندگی میں سامنے کیوںنہیں لانا چاہتے یہ تو وہی بتاسکتے ہیں ، عین ممکن یہ اسی قسم کا سچ ہو جو جسٹس نسیم حسن شاہ ایک انٹرویو میں بولتے نظر آئے کہ مجھے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو ہر حال میں پھانسی دینے کا کہا تھا، وہ یہ بیانات جنرل ضیا الحق کی زندگی میں کہتے تو سچ مانا جاتا، یہ بات انہوں نے ایسے وقت میں کہی جب جنرل ضیا ان کی بات کا جواب دینے کے لیے موجود نہیں تھے۔
بابا رحمتا جو کچھ اپنے زمانہ اقتدار میں کرتا رہا، مریم نواز شریف آج کل مختلف جلسوں میں اُس کا حساب مانگ رہی ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب متنازعہ فیصلے کیے جارہے تھے اس وقت موت یاد نہیں تھی؟ جب نوازشریف مخالفین کی الیکشن مہم چلارہے تھے اس وقت موت یاد نہیں تھی؟ آج کہتے ہیں کہ میں نے صادق و امین ہونے کا مکمل سرٹیفکیٹ نہیں دیا تھا، مریم نواز نے پوچھا یہ آدھا سرٹیفکیٹ کون سا ہوتا ہے، ان کی بات میں وزن ہے، کریکٹر سرٹیفکیٹ کے مطابق کوئی شخص صاحب کردار ہوتا ہے یا بدکردار۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیںہوتا یہ بھی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص صبح بدکردار ہو اور رات کو صاحب ِ کردار ہوجائے۔
بابا رحمتے نے بتایا کہ اس کا وٹس ایپ اکائونٹ ہیک ہوگیا ہے جس سے معلومات حاصل کرکے کوئی نئی آڈیو یا ویڈیو بن سکتی ہے، یہ آڈیو ویڈیو کی نئی بتی ہے،پوری قوم اس کے پیچھے لگی ہے،بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے مریم نواز شریف نے اپنی اونچی ایڑھی کی جوتی اُتار لی ہے، دیکھنا ہے اور کون کون اس کی زد میں آتا ہے، سیاسی موسم ابر آلود ہے، چھترول پروگرام میں تیزی کا امکان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button