Ali HassanColumn

مقبولیت بمقابلہ جمہوریت .. علی حسن

علی حسن

 

پاکستان کی سیاست میں سیاسی رہنمائوں کی مقبولیت نیک شگون کا سبب کیوں نہیں بنتی ہے۔ اکثر یہ گمان خام خیالی ثابت ہوتی ہے کہ مقبول سیاسی رہنماء پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کا باعث ہوں گے لیکن ایسا اب تک تو نہیں ہو سکا ۔ تازہ ترین دلچسپ صورت حال سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان مقبولیت بمقابلہ جمہوریت کے معرکہ سے دو چار ہیں۔ ۱۹۵۸ میں مارشل لا کے نفاذ سے قبل ۱۹ جولائی کو اعلان ہو چکا تھا کہ عام انتخابات فروری ۱۹۵۹ کے مہینے میں ہوں گے۔ انتخابی مہم میں اس وقت کے مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں تاریخی طویل ترین جلوس نکلا تھا۔ یہ جلوس ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ کو جہلم سے گجرات تک ۳۲ میل لمبا جلوس تھا۔ قیوم خان نے جلوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ فوج اور بیورو کریسی عوامی جذبات و خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق ادا کریں گے ۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ اس وقت کے صدر اسکندر مرزا ان انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت میں بھی اپنے لیے محفوظ اور مضبوط حیثیت کے متمنی تھے جبکہ عوام کی اکثریت ان سے نالاں تھی۔ اس جلوس کے نکلنے کے بعد ہی اسی رات پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ اسکند مرزا اور ایوب خان کی ملی بھگت سے نافذ کئے جانے والے مارشل لاء کی مدت ایک لحاظ سے دس سال رہی۔ ان دس سالوں میں دو دفعہ ایوب خان کے نافذ کئے گئے مار شل لاء کے ابتدائی دور میں ہی نیا سیاسی نظام ــ بنیادی جمہوریت متعارف کرایا گیا جس کے تحت لوگوں کو براہ راست ووٹ دے کر اپنی نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ ۸ مئی ۱۹۶۲ کو پہلا انتخاب کرایا گیا جس کی رو سے قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ۸ جون ۱۹۶۲ کو منعقد ہوا۔ قومی ابملی کے ارکان کی تعداد ۱۵۶ تھی اور پھر ۱۹۶۴ میں اسی نظام کے تحت حکومت چلتی رہی۔ ملک میں کرائے جانے والے پہلے صدارتی انتخاب بھی اسی نظام کے تحت ۲ جنوری ۱۹۶۵ کو کرایا گیا تھا۔ انتخاب میں ایوب خان کامیاب قرار دیئے گئے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ کو ناکام ثابت کیا گیا ۔ایوب خان کے نظام کی بساط ایوب خان کے لگائے ہوئے ہی فوج کے ایک اور سربراہ جنرل یحییٰ خان نے لپیٹ دی تھی اور ملک میں ایک بار پھر مار شل لا ء نافذ کر دیا گیا تھا۔ دوسرے مار شل لا ء کے دوران ہی یحییٰ خان نے ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا ۔ یہ انتخابات ملک میں پہلی بار ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہونا تھے۔ انتخابی مہم کے بعد ووٹ ڈالنے کا مرحلہ آیا۔ سابق مغربی پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو مقبول سیاسی رہنماء کے طور پر سامنے آئے اور سابق مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش ) میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان مقبول ترین لیڈر کی حیثیت سے اُبھرے تھے۔ انتخابات کے نتائج آئے تو عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ۱۶۲ میں سے ۱۶۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی۔ ملک بھر میں ۳۰۰ نشستیں تھیں۔ مقبولیت کی یہ انتہا پاکستان کو راس نہیں آئی اور اقتدار شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کر نے کی بجائے مختلف حیلے بہانے اختیار کئے گئے اور اسی حیل و حجت میں عام بغاوت اور خانہ جنگی ہو گئی۔ فوج کو کارروائی کرنا پڑی تو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور مشرقی پاکستان کو جنگ میں الجھا دیا تھا لیکن شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ یہ دوسرے مقبول سیاسی رہنماء کا معاملہ تھا۔
ملک دو لخط ہو گیا تھا۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ٹوٹ جانے والے پاکستان کے بقایا حصے میں اقتدار حاصل کر نے میں کامیاب رہے تھے۔ پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کی ۱۳۸ نشستوں میں سے ۸۶ نشستیں حاصل کی تھیں۔ انہوں نے پانچ سال حکمرانی کی، جس کے بعد عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ ان کے خلاف سیاسی قائدین نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) میں بھٹو مخالف تمام سیاسی جماعتیں شامل ہو گئی تھیں اور بھٹو ہٹائو مہم چلائی گئی تھی۔ بھٹو اور ان کے سیاسی مخالفین کے درمیاں دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے مذاکرات جاری ہی تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں ۵ جولائی ۱۹۷۷ کو مار شل لاء نافذ کر دیا اور بھٹو کو اقتدار سے معزول کر دیا تھا۔ ضیا ء نے نوے روز میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا لیکن بھٹو کی مقبولیت کی وجہ سے لاہور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے پی این کے صف اول کے قد آور رہنماء مولانا شاہ احمد نورانی پر حملہ کر دیا تھا اور ان کی پگڑی اتار کر زمین پر پھینک ان کی تذلیل کی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اس کارروائی کی وجہ سے جنرل ضیاء سمیت سب ہی نے ناراضگی کا اظہار کی تھا ۔ بھٹو کی یہ ہی مقبولیت انتخابات کو ملتوی کرنے کا سبب بنے تھے ۔ ضیاء نے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان ۱۷ اکتوبر ۱۹۷۸ میں کیا تھا کہ وہ اگلے برس ملک کا نظم و نسق سول حکومت کے سپرد کر کے ایک مثال قائم کر دیں گے۔ لیکن ۱۷ اگست ۱۹۸۸ تک جب ان کا ایک فضائی حادثہ میں انتقال ہو گیا وہ اپنے اعلان پر عمل نہیں کر سکے۔ وہ دس سال تک حکمرانی کرتے رہے تھے۔
سندھ کی سطح تک مہاجر قومی موومنٹ جسے بعد میں متحدہ قومی موومنٹ کا نام دیا گیا تھا،کے قائد الطاف حسین کو تاریخی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ ان کی جماعت نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقدہ ۱۹۸۸ میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی جماعت قومی سطح پر تیسری اور چوتھی بڑی جماعت کے طور پر ابھری تھی۔ عوام کی نبض الطاف حسین کے ہاتھ میں قرار دی جاتی تھی۔ ۱۹۹۲ میں ہونے والے فوجی آپریشن کے ابتداء میں الطاف حسین لندن چلے گئے اور وہیں سے اپنی پارٹی چلا رہے تھے ۔کراچی میں امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی۔ الطاف حسین کی ۲۲ اگست ۲۰۱۶ کی ایک تقریر کی وجہ سے ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
مختلف مواقعوں پر سیاست میں ایسے مرحلے بھی آئے جن کی وجہ سے سیاست میں اونچ نیچ پیدا ہو ئی لیکن گاڑی گھسٹتی رہی۔ ۲۰۱۸ میں عمران خان کی سیاسی جدوجہد رنگ لائی اور وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ ان کے سیاسی مخالفین پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ان پر ’’ سلیکٹڈ‘‘ کا الزام عائد کیا جس کا ذمہ دار فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹھہرایا گیا ۔ عمران خان حکومت کرتے رہے لیکن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور ان کی حکومت ختم کرا دی گئی۔ مخالفین جو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پرچم تلے جمع تھے، عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ عمران خان نے ان کی حکومت کے خاتمہ کو امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل قرار دیا۔ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے افرا تفری کی کیفیت پیدا ہو ئی جو عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بن گئی۔ عمران خان مختلف مواقعوں پر تقاریر کر تے رہے جسے دو ٹی وی چینل اے آر وائی اور بول خصوصی طور پر نشر کرتے رہے۔ عمران خان ضمنی انتخابات میں ایک کے بعد دوسرے میں کامیاب ہوتے گئے ۔ ان کے نامزد امیدوار انتخابی مخالفین پر سبقت لیتے رہے۔ عمران خان ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وفاقی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے انہوں نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیوں کو بھی برخاست کر ادیا۔ وہ اس خوش فہمی میں تھے کہ ان کی مخالف نون لیگ انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر ا دے گی لیکن نون لیگ اس مرحلے پر انتخابات کے انعقاد کو اپنے حق میں نیک شگون نہیں سمجھتی ۔ عمران خان کی مقبولیت کی انتہاء ۲۸ فروری ۲۰۲۳ کو اس وقت د یکھنے میں آئی جب انہیں اسلام آباد میں ایک عدالت نے طلب کیا۔ بلا شبہ ہزاروں لوگ جلوس کی صورت میں ان کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد گئے۔ اسی موقع پر حکمران گروہ نے اپنے اس قیاس کو پختہ کر لیا کہ اگر انتخابات کرائے گئے تو عمران خان دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اسی قیاس کی بنیاد پر یہ سوچا جا رہا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے اول تو ا نتخابات ہی نہیں کرانے ہیں اور اگر انتخابات کرانے بھی پڑے تو عمران خان کو اقتدار منتقل نہیں کیا جائے گا۔ اگر مقتدر حلقے اور حکومت میں کہیں ایسی تجویز پر غور ہو رہا ہے تو وہ ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگا اور یہ ایک اور حادثہ ہوگا۔ اگر ایسے حادثہ کے نتائج کو برداشت کیا جا سکتا ہے تو بے شک اقتدار منتقل نہ کرنے کی فاش غلط تجویز پر عمل کر لیا جائے جو کسی سانحہ کو ہی جنم دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button