Editorial

حالات کی سنگینی کا ادراک کیجئے !

 

ترقی یافتہ اقوام اپنی ترقی کا راز دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی گئی پالیسیوں کو قرار دیتی ہیں۔ بلاشبہ جب مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو وہ حالات حاضرہ یعنی موجودہ تقاضوں سے یکسر مختلف ہوتی ہیں اور شاید اسی لیے اُن پر اتفاق رائے بھی مشکل ہوتا ہے مگر جب بالآخر وہ پالیسیاں اپنے ثمرات قوم کے سامنے لاتی ہیں تو تمام فریق اُس کو اپنی دور اندیشی قرار دیتے ہیں اور حقیقتاً وہ سبھی فریقین کے اتحاد و اتفاق کا نتیجہ ہوتی ہے مگر اِس کے برعکس ترقی پذیر ممالک صرف اسی لیے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ وہاں مستقبل کی ضروریات تو بہت دور، حالات حاضرہ کی ضروریات کو بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ہر وہ عمل دھرایا جاتا ہے جو اُن حالات میں غیر ضروری، خطرناک اور دور رس منفی نتائج کی صورت برآمد ہوتا ہے، ترقی یافتہ اقوام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ قسمت کی بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہم اپنی ہر نااہلی اور کوتاہی کو قسمت کا لکھا قرار دے کر سرخرو ہوجاتے ہیں، چونکہ ہمیں منہ چھپانے کے لیے ایک نقاب اور چھپنے کے لیے دیوار ہر دور میں ہمہ وقت دستیاب رہی ہے لہٰذا ہم اِسی مشق میں مگن ہیں اور اِسی کو ترقی گردانتے رہے ہیں حالانکہ ہم ترقی کی منزل کی طرف پرواز کرنے کی بجائے بادِ مخالف جارہے ہیں مگر کون روکے اور کون توجہ دلائے، ہم معاشی بحران کا شکار ہیں کیونکہ ماضی کی غلطیوں کا اب پوری قوم کو سامنا کرنا ہے۔ ڈیم بنے ہوتے تو آج بجلی سستی ہوتی، کارخانے بھی دن رات چلتے۔ ہم زرعی پالیسی بناتے اور ہر حکومت اُس پر عمل کرتی تو ہم گندم کے خوشے خوشے کے لیے دوسرے ممالک کے محتاج نہ ہوتے۔ ایسی ان گنت مثالیں ہماری کوتاہ اندیشی کا ثبوت ہیں مگر ہم آج بھی سبق سیکھنے کی بجائے اُسی روش پر چل رہے ہیں، دیکھا جائے تو چہرے بدلے ہیں مگر نظام اور روش نہیں بدلی، اسی لیے ان مشقوں کے نتائج بھی نہیں بدلیں گے۔ اتوار کے روز توشہ خانہ کیس میں عدالت کی سماعتوں سے مسلسل غیر حاضری پر عمران خان کے ناقابل ضمانت وانٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد ایس پی سٹی اسلام آباد حسین طاہر کی سربراہی میںپولیس ٹیم، پنجاب پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور پہنچی جس کے بعد پولیس اور کارکنوں کے درمیان اشتعال بڑھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہر ذی شعور اور ذمہ دار شہری تشویش میں مبتلا ہوگیا۔پولیس کے پہنچنے کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان کی بڑی تعداد عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچ گئی ، کارکنوں نے پولیس کے خلاف اور عمران خان کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔ اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ عدالتی احکامات کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد پولیس ٹیم آئی ہے اور لاہور پولیس کے تعاون سے تمام کارروائی مکمل کی جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں انہیں اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے لیے بھی تیاریاں ہیں، اور وفاقی پولیس انہیں سی آئی اے سیل میں بھی رکھنے کے آپشن پر غور کررہی تھی ۔ہم آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کی اِس بات سے متفق ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری کا عمل قانونی ہے اور انہیں آج بروز منگل عدالت میں پیش کرنا ہی ہے، لیکن کیا موجودہ حالات میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں امن و امان کی صورت حال قابو میں رہے گی اورجس نوعیت کے خدشات سنجیدہ اور غیر جانبدار شخصیات کی جانب سے ظاہر کیے جارہے ہیں ویسے خدشات رونما نہیں ہوں گے اور کسی منتشر و مشتعل عوام کے سڑکوں پر ہونے کا فائدہ پاکستان دشمن طاقتیں نہیں اٹھائیں گی؟ بلاشبہ وفاق میں اتحادی حکومت اِس وقت شدید ترین دبائو میں ہے ایک طرف ڈیفالٹ کے خطرات منڈلارہے ہیں جو تمام تر دعوئوں کے باوجود بہرکیف موجود ہیں تو دوسری طرف عوام پر معاشی بوجھ ایسے وقت میں منتقل کیا جارہے ہیں جس میں عموماً سیاسی حکومتیں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف منتقل کرکے رابطہ عوام مہم میں سرخرو ہونے کی کوششیں کرتی ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹواور شہید بینظیر بھٹو کے بعد اب عمران خان شہرت کی اُن بلندیوں کو چھورہے ہیں جن کا اُن کے مخالف سیاسی فریق بھی برملا اعتراف کرتے ہیں لہٰذا پنجاب اور خیبر پختونخوا میںعام انتخابات کا انعقاد نہ کرانا ان دعوئوں کو تقویت دیتا ہے کہ مشکل معاشی فیصلوں کے باعث اتحادی حکومت انتخابات میں جانے سے گریزاں ہے کیونکہ جب سے اتحادی حکومت نے عمران خان کو الگ کیا ہے، معاشی حالات قابو میں آرہے ہیں اور نہ ہی مہنگائی بلکہ صورت حال روز بروز گمبھیر ہورہی ہے اور اِس کا براہ راست فائدہ عمران خان قبل ازوقت انتخابات کے انعقاد سے اٹھانا چاہتے ہیں، چونکہ مہنگائی، بے روزگاری اور غیر یقینی کی صورت حال نچلی سطح تک سرائیت کرچکی ہے لہٰذا ان حالات میں جب عوام معاشی مسائل کی وجہ سے نالاں نظر آرہے ہیں ایسے میں کوئی بھی اقدام انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور ملک دشمن قوتیں ان حالات کو امن و امان کی خرابی کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ بلاشبہ ماضی میں بھی قومی سطح کے رہنمائوں کو پابند سلاسل کیاگیا اوروہ سالہا سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بے گناہ کے طور پر رہا کیے گئے، رہنمائوں کے سر، منہ مونڈھے گئے زبانیں کاٹی گئیں اور گھروںکے محاصرے کیے گئے ، اگر یہی روش آگے بڑھانی ہے تو ان کے نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنا ہوگی۔ ایک لمحہ کے لیے سوچیں عمران خان کے دور میں کرونا اور دوسرے مسائل سامنے آئے، مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا اور پی ٹی آئی حکومت عوام کو اِس حوالے سے مطمئن کرنے میں بظاہر ناکام رہی لیکن بالآخر تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت کا سارا بھار اپنے کندھوں پر بھی لے لیا گیا اور آب بارہا اعتراف کیاجارہا ہے کہ ہم نے اپنی سیاست کو مشکل میں ڈالا ہے، اتحادی حکومت کے دور میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات کے نتائج بھی عوام کی ناراضگی کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ووٹرز کی کثیر تعداد کاتعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہوتابلکہ وہ اپنے معاشی حالات دیکھ کر ووٹ کی صورت میں اپنے ردعمل کا اظہارکرتی ہے، لہٰذا مشکل معاشی فیصلے کرکے سیاسی قیمت تو اداکرنا ہی پڑے گی اور اگر کسی کو یقین ہے کہ امن و امان کی صورت حال خراب کرکے انتخابات کو مقررہ مدت سے آگے لے جاکر رائے عامہ کو اپنے لیے ہموار کیا جاسکتا ہے تو ہماری رائے میں ایسا کرنا قطعی ٹھیک فیصلہ نہیں ہوگا کیونکہ جب انتشار پھیلتا ہے تو پھر پھیلتا چلا جاتاہے اور اِس کو بڑھاوا دینے کے لیے نادیدہ قوتیں بھی میدان میں اُتر آتی ہیں ،اِس وقت ملک کے داخلی حالات ایسے نہیں ہیں کہ کسی قسم کے انتشار یا بدامنی کا ہم سامنا کرسکیں، پاک فوج کے جوان پہلے ہی دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہیں، ایسے میں حالات کو سنبھالا کون دے گاکیونکہ سکیورٹی فورسز پہلے ہی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے فورسز فراہم کرنے سے معذرت کرچکی ہیں اور ان کا موقف بھی صدفی صد درست ہے، لہٰذا حالات کے تقاضوں کو ہرسطح کی گفتگو میں مدنظر رکھا جائے اب ہم لکیر پیٹنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں اور بحران انتہائی گہری جڑیں گاڑ چکا ہے، ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کو مدنظر رکھنا ہی دانش مندی ہے کیونکہ وطن عزیز اِس وقت انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button