Editorial

پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان

پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدالیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مراسلہ ارسال کیا اور پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 30اپریل سے 7مئی تک کی تاریخیں تجویز کیں اور ساتھ ہی واضح کیا کہ الیکشن کمیشن اپنے آئینی وقانونی فرائض انجام دینے کے لیے تیار ہے۔ الیکشن کمیشن کا مراسلہ ملنے کے بعد ایوان صدر نے اعلامیہ جاری کیا کہ صدر مملکت نے 30 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کرانے کا اعلان کیاہے۔ دوسری طرف گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے موقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے رابطہ کیا تو وہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دے دیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب کا منظر نامہ اِس حد تک تو واضح ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مراسلے پر صدر مملکت نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان پر ابھی تک خاموشی ہے۔ بہرکیف معاملہ جمہوری قوتوں کا تھا لیکن حسب معمول عدالت تک پہنچا بلکہ اِس معاملے میں تو عدالت عظمیٰ کو ازخود مداخلت کرنا پڑی۔ آئین کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے نوے روز کے اندر انتخابات کا انعقاد لازم ہے لیکن دونوں صوبوں کے گورنرز نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا جو بلاشبہ اُن کی قیادت کی حکمت عملی ہوگی مگر آئینِ پاکستان اِس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لہٰذا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے ذریعے سیاست دانوں کو آئین کی طرف متوجہ کیا ہے اور اپنے حکم نامے میں ہمیشہ کے لیے اس بحث کو ختم کر دیا ہے کہ گورنر یا صدر کو انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کب کرنا چاہیے، اور جیسا کہ تحریری حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے بغیر کوئی پارلیمانی جمہوریت نہیں ہو سکتی، لہٰذا آئین کے تحت اور اس کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے بغیر نہ تو پارلیمنٹ ہو سکتی ہے اور نہ ہی صوبائی اسمبلیاں۔اِس لیے دونوں صوبوں میں انتخابات نوے دن کی مدت کے اندر ہی ہونے چاہئیں لیکن بظاہر اِس معاملے کو جس طرح زیر بحث لایا جارہا ہے تو معاملہ پٹری پر آنے کی بجائے پٹری سے نیچے اُترتا بلکہ کسی اور سمت جاتا نظر آرہاہے حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمام ابہام اور انتخابات کے انعقاد سے متعلق بے یقینی ختم ہوجانی چاہیے تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں جبکہ فریق دوم تحریک انصاف اِس فیصلے پر خوشی کا اظہارکررہی ہے۔ ملک کی مجموعی صورتحال میں آئینی، قانونی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ سیاسی کشیدگی کو ختم کرکے اصل مسائل کی جانب متوجہ ہوا جائے جو دراصل معیشت اور اِس سے جڑے مسائل ہیں۔ عوام شدید معاشی مسائل کا شکار ہے مگر ہر نئے دن کے ساتھ اِس کو درپیش آزمائش کو طول دیا جارہا ہے۔ پاکستان درحقیقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اور اِس بحران کا حل منٹوں میں ممکن نہیں بلکہ طویل حاضر دماغی سے ترتیب دی گئی دور رس نتائج کی حکمت عملی ہی سالہا سال بعد ہمیں اِس بحران سے باہر نکال سکتی ہے، جب ہم اِس بحران سے باہر نکلیں تو ہماری اگلی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم دوبارہ اُس بحران میں کبھی نہ پھنسیں جس سے بمشکل باہر نکلے ہیں اِس لیے آئی ایم ایف کا ہر پروگرام ڈنگ ٹپائو سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے معاشی حالات ماضی میں حکمرانوں نے دیکھے اور نہ ہی عامۃ الناس نے، لہٰذا عوام جبھی مطمئن ہوسکتے ہیں جب انہیں بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹھوس اور عملی کاوشیں نظر آئیں کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کیا جارہا ہے تو دوسری طرف عوام کو اِن شرائط کا خمیازہ بھگتنے کے لیے بے یارومدد گار چھوڑ دیاگیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اتحادی حکومت دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہے کیونکہ ابھی تک وفاقی حکومت بظاہر ایک وعدہ بھی پورا نہیں کرسکی جو سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک کے دوران کیا تھا۔ محض بارہا کہہ دینا کافی نہیں کہ حکومت معاشی فیصلوں کی سیاسی قیمت ادا کررہی ہے بلکہ موجودہ حالات اور مستقبل کے لیے کوئی میثاق طے نہ پانے کی وجہ سے عوام اور اتحادی حکومت کے لیے آنے والا وقت مزید کٹھن دکھائی دے رہا ہے۔ عوام تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی اور بے روزگاری کا سامناکررہے ہیں اور پھر بھی عوام سے مزید قربانیوں کا تقاضا کیا جارہا ہے مگر کب تک حالات کو ٹالا اور وقت کو روکا جاسکتا ہے۔ دو اسمبلیاں پہلے ہی تحلیل ہوچکی ہیں سندھ اور بلوچستان اسمبلی اور قومی اسمبلی بھی اپنی آئینی مدت پر ختم ہوجائیں گی تب بھی عوام کی عدالت میں جانا پڑے گا تو معاملے کو پیچیدہ اور متنازعہ بنانا بلاشبہ لاحاصل ہوگا۔ ایک سال پہلے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو سپریم کورٹ کو آئین کی پاسداری کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ ایک سال بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو آئین کی پاسداری کے لیے ایک بار پھر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی لہٰذا اب معاملات کو متنازعہ بناکر طول دینا اور کج بحثی کے ذریعے دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا سبق دینا قطعی مناسب نہیں۔ یکے بعد دیگر اداروں، شخصیات اور قوانین کو متنازع بنانے کے نتائج قطعی مثبت برآمد نہیں ہوں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ اتحادی حکومت کو آئینی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے لیے پیش قدمی کرنی چاہیے، موجودہ حالات بلاشبہ اچانک پیدا نہیں ہوئے لہٰذا جوانمردی کے ساتھ حالات کا سامناکرنا چاہیے، چونکہ ملک میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ قومی اسمبلی کی موجودگی میں دونوں صوبوں میں پانچ سال کی مدت کے لیے انتخابات ہوں اور پھر دونوں صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں قومی اسمبلی ، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوں۔ بلاشبہ اب بہت کچھ پہلی دفعہ ہورہا ہے لہٰذا اِن کے نتائج بھی پہلی بار سامنے آئیں گے۔ بہرکیف سپریم کورٹ کے احکامات اور آئین پاکستان کو ہر لمحہ مقدم رکھاجائے کیونکہ آئین کی پاسداری میں ہی ملک و قوم کی بقا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button