ColumnKashif Bashir Khan

آئین شکنی ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

آئین شکنی

پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ نہ دینے میں دانستہ غفلت دونوں صوبوں کے گورنر حضرات نے برتی تھی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے انتخابات 90 روز میں کروانے کا فیصلہ دے کر سب کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے بلکہ خیبر پختونخوا کے گورنر کے بارے میں تو فیصلے میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ نہ دے کر آئین سے انحراف کیا ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جنرل ضیاالحق نے شب خون مارا تو اس نے اعلان کیا تھا کہ نوے روز میں انتخابات کروا کر میں واپس چلا جاؤں گا لیکن اس آمر کے نوے دن 11 سال میں بھی پورے نہ ہوئے تھے اور اس عرصہ میں اس نے پاکستان کی سیاسی،سماجی اور آئینی تباہی پھیر دی تھی۔ اس کے جانے کے بعد آئین پاکستان میں جو ترامیم کی گئیں ان میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے روز میں انتخابات کروانا لازم ہیں بلکہ یہ بھی لکھا گیا کہ نوے روز سے زیادہ عرصہ آئین شکنی کے مترادف ہو گالہٰذاجو کھیل 2022 میں عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے کھیلا گیا تھا اس میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملکی حلقے بھی شامل تھے اور عوام نے جو مینڈیٹ 2018 میں تحریک انصاف کو دیا تھا اس کی تذلیل کرتے ہوئے 86 سیٹوں والی جماعت کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔اس کے بعد پچھلے گیارہ ماہ میں پاکستان کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور عوام کا جو شدید ردعمل ان قابض ٹولے کے خلاف ہر ضمنی انتخاب میں سامنے آیا وہ بھی پاکستان کی تاریخ میں کبھی پہلے نہیں دیکھنے کو ملا۔
سپریم کورٹ کے انتخابات کی تاریخ دینے کے حکم نامے کے پیچھے صدر مملکت عارف علوی کا پنجاب اور خیبرپختونخواکی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کے صدارتی حکم نامے نے بنیادی کردار ادا کیا۔صدر مملکت کا یہ قدم آئین پاکستان کے عین مطابق تھا اور اس نے اپوزیشن بالخصوص نون لیگ کی جانب سے آئین پاکستان کو روندنے کی کوشش کو ناکام بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔سپریم کورٹ سے تاریخ ساز فیصلے کے فوری بعد پی پی پی کے سابق گورنر اور اہم رہنما لطیف کھوسہ نے میرے پروگرام میں اس فیصلے کو سراہا اور اسے آئین و قانون کے عین مطابق قرار دیا۔میرےسوال پر کہ قمر الزمان کائرہ تو بیانات دے رہے ہیں کہ ابھی انتخابات نہیں کروائے جا سکتے تو کھوسہ صاحب کا کہنا تھا کہ ان کے اس بیان کا پی پی پی کی پالیسی سے کچھ لینا دینا نہیں اور قمر الزمان کائرہ کابینہ کی زبان بول رہے ہیں جس کا سربراہ شہباز شریف ہے۔ان کے اس بیان میں حقیقت ہے کہ کائرہ جیسے رہنماؤں کی حقیقت صرف میڈیا کی حد تک ہے اور وہ عوام کی عدالت میں تو الیکشن جیتنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔یہی حال نون لیگ کا ہے کہ مریم نواز جہاں بھی جاتی ہیں اول تو وہ سیاسی اور فکری سوچ سے عاری باتیں کرتی ہے دوسرا تنظیم سازی کے نام پر جو جلسے کئے جاتے ہیں ان میں سو دو سو سے زیادہ لوگ شرکت نہیں کرتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی گورنر خیبر پختونخوا غلام علی کا طرز عمل اور سست روی دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف اور انتخابات نہ کروانے کے عذرڈھونڈنا ہے۔پنجاب میں انتخابات کی تاریخ الیکشن کمشنر کی سمری کے بعد صدر مملکت نے 30 اپریل مقرر کر دی ہے۔تحریک انصاف کو جہاں طاقتور حلقوں اور پی ڈی ایم کی مخالفت کا سامنا ہے وہاں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی مخالفت کا بھی سامنا ہے جو کل ہی پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں شریک تھا جو انتخابات کے تناظر میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوچ بچار کے لیے ہوا تھا اور جس کا مقصد انتخابات سے فرار تھا۔ایک نگران وزیر اعلیٰ جب ایسے حکومتی اتحاد کے اجلاس میں شریک ہو رہا ہو جو انتخابات نہ کروانے کے لیے آئین پاکستان کو روندنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہوں وہ غیر جانبدار کیسے ہو سکتا ہے؟
پاکستان کی سیاست کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں صوبوں میں نون لیگ کی سیاسی لاش دفن ہونے کو ہے اور پیپلز پارٹی اس ساری صورتحال سے نہ صرف محظوظ ہو رہی ہے بلکہ وہ آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو من و عن ماننے کے پالیسی بیانات بھی دے رہی ہے۔یہاں میں نون لیگ کے سابق وزیر مملکت چودھری جعفر اقبال کا فیصلے کے دن جب نون لیگ کے قریباً تمام ہی چھوٹے بڑے رہنما اپنا موقف دینے سے انکاری تھے۔ کا میرے پروگرام میں عدلیہ اور اس کے فیصلے کے خلاف نازیبا زبان بولنے کا ذکر کرنا ضرورت سمجھتا ہوں اور اس کے بعد جس طرح مریم نواز، رانا ثناء اللہ اور دوسرے نون لیگی رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے ججوں اور ان کے فیصلوں پر اپنی زبانیں نکالی ہوئی ہیں وہ ریاست پاکستان اور آئین پاکستان سے کھلم کھلا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اور ماضی میں کس طرح کی زبان شریف خاندان نے گجرانوالہ کے جلسے میں عسکری ادارے اور اس کے سربراہ بارے بولی تھی اور انہیں کسی بھی قسم کی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا مگر یہ اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اگر اب بھی انہیں قانون اور آئین کی گرفت میں نہ لیا گیا تو پھر ریاست اور آئین کی بدترین شکل سامنے آتی رہے گی۔آج چور دروازے سے مرکز میں برسر اقتدار آنے والے حکمران اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں کہ اگر انتخابات میں جاتے ہیں تو عوامی تائید سے نہ صرف محرومی صاف دکھائی دے رہی ہے بلکہ عوام کی جانب سے شدید ردعمل بھی متوقع ہے بلکہ یقینی ہے۔نون لیگ اب بھی سپریم کورٹ کے احکامات کو ہوا میں اڑانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے کہ اگر 30 اپریل کو پنجاب کے انتخابات ہوتے ہیں تو مرکزی وزیر اور مشیر انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے پائیں گے اور مریم نواز شریف کے پاس تو طعنوں کے علاؤہ انتخابی مہم میں کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو چور دروازے سے اقتدار حاصل کر کے غرق کر دیا گیا۔آج آئین شکنی کی کوشش کرنے والے ریاست کے دشمن ہیں۔ عمران خان کی عوامی تائید و حمایت کے سامنے پی ڈی ایم اس وقت ریت کی دیوار نظر آرہی ہے اور تمام تر انتقامی کارروائیوں اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے باوجود نون لیگ اور اتحادی جماعتیں پاتال میں گری نظر آرہی ہیں۔عمران خان نے بہترین حکمت عملی سے وفاقی حکومت کی تمام انتقامی کارروائیوں کو ناکام کرتے ہوئے جیل بھرو تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت اس وقت اتحادی وفاقی حکومت کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے اور اعلیٰ عدلیہ کو سوچنا ہو گا کہ صاف شفاف انتخابات ہی ریاست پاکستان کی سالمیت اور معاشی استحکام کے ضامن ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button