CM RizwanColumn

مہنگائی: ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

مہنگائی: ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا

گزشتہ ماہ فروری میں جہاں ملک کی سیاسی صورتحال انتہائی کشیدہ، دگرگوں اور بحران آمیز رہی، اقتدار کے رسیا حکمران طبقے کے تماشے دیدنی رہے وہاں مہنگائی گزشتہ 48 سالہ ملکی تاریخ کی بلند ترین 31.6 فیصد سطح پر پہنچ گئی جبکہ صارف اشاریہ انڈیکس (سی پی آئی) سے پیمائش کی گئی مہنگائی کی شرح فروری میں بڑھ کر تاریخ کی بلند ترین سطح 31.55 فیصد پر پہنچ گئی، جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ گزشتہ مہینے جنوری میں مہنگائی 27.60فیصد پر تھی۔ عارف حبیب کارپوریشن کے مطابق جولائی 1965 سے دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ سی پی آئی میں اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔اس کارپوریشن کے یہ اعدادوشمار درست بھی ہوسکتے ہیں لیکن رپورٹ کرنے کا بنیادی مقصد سیاسی فوائد کا حصول ہے۔ بہرحال گزشتہ سال فروری 2022 میں مہنگائی کی یہ شرح 12.2 فیصد تھی۔ ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں مہنگائی بالترتیب سال بہ سال بڑھ کر 28.82 اور 35.56 فیصد ہوچکی ہے۔ صارف اشاریہ انڈیکس میں گزشتہ چند ماہ سے تیزی سے اضافہ دیکھا گیا جو کہ گزشتہ برس جون سے سالانہ بنیادوں پر مہنگائی 20 فیصد سے اوپر ہے۔ اسی طرح سالانہ بنیادوں پر ٹرانسپورٹ 50.45 فیصد، الکوحل والے مشروبات اور تمباکو 49.2 فیصد، تفریح اور ثقافت 48.05 فیصد، جلد خراب ہونے والی غذائی اشیاء 47.59 فیصد، ریسٹورنٹ اور ہوٹلز 34.54 فیصد، گھروں کی تزئین و آرائش کی مصنوعات 34.04 فیصد، متفرق اشیا اور خدمات 33.29فیصد، صحت 18.78 فیصد، کپڑے اور جوتے 16.98 فیصد، گھر اور یوٹیلٹیز 13.58 فیصد، تعلیم 10.79 فیصد اور مواصلات 3.69 فیصد مہنگی ہوئیں جبکہ مجموعی ملکی معیشت میں افراط زر کی شرح وزارت خزانہ کی 30 فیصد کے تخمینے سے زیادہ رہی۔
وزارت خزانہ نے ماہانہ اکنامک اپڈیٹ اینڈ آؤٹ لُک میں بتایا تھا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی سالانہ بنیادوں پر 28 سے 30 فیصد کے درمیان رہے گی اور اس کی وجہ حالیہ سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی صورت حال کو قرار دیا تھا۔ وزارت خزانہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ غیر یقینی سیاسی اور معاشی ماحول، روپے کی قدر میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور فروری میں زیر انتظام قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی زیادہ رہے گی لیکن جو مہنگائی متوقع تھی اس سے بھی کہیں زیادہ تباہ کن مہنگائی مسلط ہوگئی ہے جس کی وجہ سے عام پاکستانی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے جبکہ مزید تباہی کا پیش خیمہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر ایک بار پھر پاکستان کی کرنسی کی قدر پر بُری طرح اثرانداز ہوئی ہے اور دو مارچ (جمعرات) کو پاکستان میں ایک ڈالر کی قیمت میں اچانک 18 روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا جو پاکستانی روپے کی قدر میں ساڑھے چھ فیصد سے زیادہ کمی کے مترادف ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا یہ سلسلہ بدھ سے ہی شروع ہو گیا تھا اور کاروبار کے اختتام پر یکم مارچ کو ڈالر کا پاکستان میں انٹربینک ریٹ چار روپے اضافے کے بعد 266 روپے 11 پیسے تھا۔ تاہم جمعرات کو مارکیٹ کھلتے ہی ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا اور چند ہی گھنٹے میں ایک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں ہی قریباً 19 روپے اضافے کے بعد 285 روپے تک پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں ایک نیا سیاہ ترین ریکارڈ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 300 روپے سے بھی زیادہ میں فروخت ہو رہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کو ایک سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے جس میں زر مبادلہ ذخائر بھی چار ارب ڈالر سے کم رہ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اس بحران سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف کی جانب دیکھ رہی ہے۔ گزشتہ ماہ جنوری کے آخر میں پاکستان میں زرِ مبادلہ کی ایکسچینج کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا مصنوعی کیپ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد کرنسی مارکیٹ میں کچھ استحکام دیکھنے کو ملا تھا اور آئی ایم ایف کی ٹیم کے دورہ پاکستان کے بعد روپے کی قدر میں کچھ اضافہ بھی دیکھا گیا تھا۔ تاہم اس دورے کے بعد اب تک آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے قرض پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا اور وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ ہفتے یہ کہا گیا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں مزید وقت لگے گا۔ یہی غیر یقینی صورتحال مارکیٹ پر اثر انداز ہو رہی ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو مالی انویسٹمنٹ کیلئے منا پائے گی یا نہیں۔
آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق ڈالر کا ریٹ وہ ہو گا جو گرے مارکیٹ میں ہے۔ شنید ہے کہ ڈالر کے بھاؤ میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی اسی شرط کے مطابق ہو رہا ہے جس کے تحت یہ عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان میں ڈالر کا وہی ریٹ چاہتا ہے جس پر افغان ٹریڈ ہو رہی ہے (یعنی گرے مارکیٹ میں ڈالر کی وہ اصل قیمت جس پر اس کی خرید و فروخت ہو رہی ہے) یعنی جو ہوا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے جو نئی شرائط لگائی ہیں اس میں ایک بڑی شرط یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ جس ریٹ پر ڈالر کی ٹریڈ ہو رہی ہے اس کے مطابق ڈالر کا ریٹ طے کیا جائے۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات میں آئی ایم ایف کی شرط کے علاوہ چند دیگر عوامل بھی شامل ہیں جیسا کہ زر مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی وغیرہ۔ اب یہ بھی خدشہ ہے کہ ایک دفعہ بڑھنے کے بعد ڈالر کا ریٹ دوبارہ اتنا نیچے نہیں آئے گا کیونکہ فی الوقت پاکستان کی ساکھ عالمی مالیاتی اداروں میں اتنی بہتر نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی بنی ہے کہ لوگ گھبرا کر ڈالر ذخیرہ کر رہے ہیں۔ اب اگر ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی آ بھی جائے تو اس سے عام آدمی کے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ زندگی مشکل ہی ہو گی کیونکہ یہ امر تو طے ہے کہ عام آدمی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ضرور ہوتا ہے۔ جب ڈالر صرف ایک روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو مجموعی طور پر پاکستان پر 130 ارب روپے کا قرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ گزشتہ دو دن میں ڈالر کی قدر میں اس اضافے سے روپے کی قدر میں 21 روپے کی کمی ہوئی جس سے 250 ارب روپے کا قرض بڑھ گیا ہے۔ اب اس کے بڑھنے کے ساتھ ہی نئے ٹیکسز لگیں گے جس کا بوجھ عوام پر آئے گا۔ تیل، بجلی، گیس، دالیں، گاڑیاں، موبائل فونز سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے بیرونی سرمایہ کار جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہوتی ہے ان کی رقم روپے گرنے کے ساتھ ہی کم ہوتی ہے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوتا ہے اور سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پہلے ہی مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ڈالر کی قدر بڑھنے سے فوری طور پر اس مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ پاکستان قریباً تمام اشیا امپورٹ کرتا ہے۔ آئندہ چند ہی روز میں روپے کی اس تازہ بے قدری کا اثر روز مرہ استعمال کی تمام اشیا پر نظر آنا شروع ہو گا۔ یہاں تک کہ جو چیزیں پاکستان میں بنتی ہیں اُن کا خام مال بھی پاکستان باہر سے منگواتا ہے، چنانچہ مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی جس کی وجہ سے پاکستان میں ناقابل برداشت مہنگائی کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔
دوسری جانب حکومت کے ذمہ داروں کا یہ حال ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو منانے میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں جبکہ عمران خان اس صورت حال میں ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر محض اپنی سیاسی کامیابی کیلئے ہر حربہ اختیارکیے ہوئے ہیں جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل نہ ہو سکے اور حکومت مزید کمزور ہو۔ یہاں تک کہ کوئی اور شخص حکومت سنبھالنے پر آمادہ نہ ہو اور وہ حکومت میں آکر ایک طرف ملکی معیشت کا مزید بیڑہ غرق کریں اور ساتھ ساتھ یہ بھی دلیل دیتے رہیں کہ یہ سب کچھ ان کے سیاسی مخالفین یعنی چوروں کی وجہ سے پوریا ہے،حالانکہ اس وقت حکومت کی ناکامی ملکی معیشت کی تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔ یعنی اگر اب بھی ملک میں مزید مہنگائی اور بدحالی آتی ہے اور ملک تباہ ہوتا ہے تو وہ اپنی جگہ’’ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button