Ali HassanColumn

دولت کی عریاں نمائش ۔۔ علی حسن

علی حسن

دولت کی عریاں نمائش

ایک پاکستانی نو دولتیے نے دبئی میں اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر اسے ترازو کے ایک پلڑے میں بٹھا یا اور دوسرے میں سونے کی اینٹیں رکھی گئیں۔ اس طرح بیٹی کو سونے میں تولا گیا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یہ اپنی دولت کی نمائش کا ایک انداز ہے۔ دولت کی نمائش کا پاکستان میں عمومی طور پر ایسا رواج بن گیا ہے جس کی وجہ سے شادیاں اور تقریبات ضرورت سے زیادہ مہنگی بنا دی گئی ہیں۔ مہنگے ترین کھانے، مہنگے ترین شادی ہال، ہالوں کی مہنگی ترین زیبائش، غرض پیسے کے زیاں کا ہر حربہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مہمان ہال کے اندر کھانوں میں مصروف ہوتے ہیں اور ہالوں کے باہر غریب لوگ کھانے مانگتے ہی رہتے ہیں مگر انہیں دتھکاریں پڑتی ہیں۔ مہنگی تقریب کے انعقاد سے ان لوگوں پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا جن کے پاس دولت ہے لیکن وہ لوگ تو زندہ ہی مر جاتے ہیں جو وسائل سے محروم ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں کم آمدنی والے لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جن کے ہاں شادی سے پہلے اور مہندی کی فوٹوگرافی پر ہی لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جن کی بیٹی مایوں میں بیٹھی دعائیں کرتی ہے کہ باپ کو کوئی ادھار مل جائے تو برأت کا کھانا پورا ہوجائے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ انہی دو طبقات کی گہری تقسیم ہے۔ وسائل سے مالا مال لوگوں سے اپنی دولت برداشت نہیں ہورہی۔ وہ نمائش کے عجیب عجیب طریقے تلاش کرتے ہیں۔ جو لوگ وسائل سے محروم ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں تو حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ اگر ہے تو صرف غریبوں کو سزائیں دینے کے لیے ہے۔
سندھ کے وزیر ریونیومخدوم محبوب الزمان کے پی اے کا شاہانہ انداز میں نکاح کی تقریب حال میں ہی منعقد ہوئی۔ دلہا سید سیف علی شاہ کو ڈالروں کے ہار پہنائے گئے ۔ ملک میں ڈالر بحران کے دوران صوبائی وزیر کے پی اے کو ڈالروں کا ہار پہنے دیکھ کر عوام حیران ہی تھے کہ پھر انہیں سونے کا تاج بھی پہنایا گیا۔ حیدرآباد میں منعقدہ نکاح کی اس تقریب میں سیاسی شخصیات سمیت زندگی کے مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی شادی کی تقریب میں سندھ اسمبلی کے رکن مخدوم رفیق الزمان، صوبائی وزیر ریونیو مخدوم محبوب الزمان نے بھی شرکت کی۔ ایس ایس پی مٹیاری ملک کلیم سمیت ریونیو افسران، ٹھیکیداروں اور دیگر نے بھی شرکت کی ۔ دلہا کو ڈالروں کا ہار پہنا کر ملک کا مذاق اڑایا گیا۔ دلہا کے والد مخدوم امین فہیم کے پی اے رہ چکے تھے۔ مخدوم محبوب الزمان ہالہ کی درگاہ کے گدی نشین خاندان سے ہیں۔ وہ مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ کے پڑ پو تے، مخدوم امین فہیم کے پوتے اور مخدوم جمیل الزمان کے بیٹے ہیں۔ محبوب الزمان کے ایک اور پی اے موٹر وے فنڈ میں غبن کا کیس بھگت رہے ہیں۔ ان سے نیب اور ایف آئی اے نے بھاری رقم بر آمد بھی کی ہے۔
چند روز قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے خود بتایا کہ وہ ایک بیوروکریٹ کی بیٹی کی شادی پرگئے ہوئے تھے، جہاں ان کے حلقے کا بندہ سلامی اکٹھی کر رہا تھا، ان کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ 72 کروڑ سے زائدکی سلامی ملی ہے اور ابھی میٹرجاری ہے۔خواجہ آصف نے بتایا کہ اسی بیورو کریٹ کی ایک اور بیٹی کی شادی پر ایک ارب 20 کروڑ روپے سلامی ملی، زیور اورگاڑیاں اس کے علاوہ دی گئی تھیں، وہی بیوروکریٹ 21،22 گریڈ پر آج بھی ملازمت کر رہا ہے، آج تک کسی نے اس بیوروکریٹ سے سوال کیا؟ معمر لوگوں کو یاد ہوگا کہ فوجی حکمران ایوب خان کے دور میں ایس ایس (سید سعید) جعفری مرکزی سیکریٹری صنعت ہوا کرتے تھے۔ ان کی اکلوتی بیٹی ناہید کی شادی کمال اظفر کے ساتھ ہوئی تھی۔ کمال اظفر خود بھی ایک بیوروکریٹ محمد اظفر کے بیٹے ہیں۔ بھٹو دور میں سندھ کے وزیر خزانہ مقرر ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ناہید کی شادی کے موقع پر درجنوں کاریں تحفے میں ملی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں صنعت لگانے کے لیے حکومت اجازت نامہ جاری کرتی تھی۔ سیکریٹری صنعت کار کی بیٹی کی شادی ہو اور سرمایہ دار اور سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے لوگ تحفے نہ دیں، کیونکر ممکن ہوتا۔ ایوب خان دور میں کار کا تحفہ معنی رکھتا تھا۔ اس تماش گاہ میں یہ بھی خبر ہے کہ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن شہزاد قریشی نے جہیز اور شادی کے غیر ضروری اخراجات کے خاتمے کی قرارداد پیش کردی ہے۔شہزاد قریشی کا کہنا ہے کہ شادی کے موقع پر غیر ضروری اخراجات اور جہیز مالی بوجھ ہیں جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کی شادی نہیں ہوپاتی۔انہوں نے زور دیا کہ سندھ اسمبلی کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر ایک اور خبر گشت کر رہی ہے کہ اٹھارہ پاکستانیوں کے چار ہزار ارب ڈالر کے اثاثے بیرون ملک ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی اپنی ایک تقریر میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ان پاکستانی سیاست دانوں کے نام لیے جن کے اربوں کے اثاثے بیرون ملک ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے لیکن یہ لوگ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ چار ہزار ارب ڈالر کے اثاثے رکھنے والے تو سمجھتے ہیں کہ یہ پیسہ ان کا پیسہ ہے وہ کیوں ضرورت کے وقت پیسہ پاکستان کو بطور قرض ہی دے دیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستانی دولت مند لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ ماضی کے سینکڑوں ایسے خاندان اور افراد موجود ہیں جو کل تک کھرب اور اربوں پتی تھے لیکن پلک جھپکتے ہی کیا سے کیا ہوگئے۔ 1971 میں سابق مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں کو تین کپڑوں میں ہی بھاگنے کا مو قع مل سکا تھا۔ 2005 میں پاکستان میں آنے والے زلزلہ، 2010 ، 2011 ،2022 اور 2023 کے سیلابوں نے موقع ہی نہیں دیا کہ لوگ تجوریوں میں سے اپنی دولت اور زیورات نکال پر محفوظ مقامات پر منتقل کر پاتے۔ ترکیہ میں حال ہی میں آنے والے ۴۵ سیکنڈ کے زلزلہ میں ۴۵ ہزار افراد زمین میں دھنس گئے اور سب کچھ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ دولت و ہی اچھی جو انسانوں کے کام آ سکے۔ تجوری میں پڑی رہنے والی دولت پڑی ہی رہ جاتی ہے۔ کون کسے اور کیسے سمجھائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button