Welcome to JEHANPAKISTAN   Click to listen highlighted text! Welcome to JEHANPAKISTAN
Ahmad NaveedColumn

ہندوستانی جہنمی خوشی سے قلابازیاں کھانے لگا .. احمد نوید

احمد نوید

 

کسی ملک میں سرکاری ملازم بنانے کا کارخانہ تھا۔ اُس ملک کے ہر فرد کی خواہش ہوتی کہ وہ بھی اُس خوش قسمت کا رخانے سے سرکاری ملازم بن کر نکلے ۔ اِس کارخانے میں کئی طرح کے سانچے تھے، جن میں اس ملک کے افراد کو ڈھال کر سرکاری ملازم بنایا جاتا تھا۔ لوہے کا سانچہ ، لکڑی کا سانچہ ، پیتل کا سانچہ ، چاندی کا سانچہ اور پھر سونے کا سانچہ ۔ اِن سانچوں میں ہر فرد کی تعلیم ، اُس کے مختلف امتحانوں میں نمبروں اور دیگر صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ڈھالا جاتا تھا ۔ چاندی اور خاص طور پرسونے کے سانچے عام طور پر اُن افراد کے لیے مخصوص تھے ، جنہیں قابلیت میں بہتر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے سونے کے سانچے سے بننے والے سرکاری ملازم کو عام طور پر کسی بڑی کرسی پر لا کر بٹھا دیا جاتا تھا، اُس ملک میں ایسے افراد کے لیے بیورو کریسی کا لفظ استعمال کیا جاتا۔ اِن افراد کا بنیادی کام اُس ملک کے غریب لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔ یہ سرکاری ملازم یا سرکاری نوکر درحقیقت اُس ملک کے غریب لوگوں کے نوکر تھے، مگر اِن کے سونے، چاندی ، پتھر، پیتل اور لکڑی کے سانچوں سے تخلیق پانے والی مخلوق ، اُن غریبوں کی ناخدا بن بیٹھی تھی ۔ لہٰذا اب اُس ملک کے تمام لاکھوں کروڑوں عوام غریب،اُن اعلیٰ سرکاری ملازموں کے کنٹرول میں ہیں ۔ اس کنٹرول کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام اعلیٰ سرکاری ملازم جنہیں بیوروکریسی کا نام دیاگیاہے ۔ اُن کی تیاری کے وقت اُن کے جسموں سے دل نکال کر ایک چپ نصب کر دی گئی تھی ۔ اُس چپ کی وجہ سے اب یہ اعلیٰ سرکاری افراد یا ملازم مکمل طو رپر غیر انسانی طریقے سے سوچتے ہیں اور مکمل طور پر مشینی طریقے سے عمل کرتے ہیں ۔ مینوفیکچررز کا خیال ہے کہ بیورو کریسی کے ان سرکاری ملازمین کو جتنا غیر انسانی بنائیں گے ، یہ اتنا ہی کمال پرفارم کریں گے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بیوروکریسی کا لفظ 18ویں صدی میں فرانسیسی حکومت کے ایک وزیر نے وضع کیا ۔ یہ اصطلاح اُن سے(Rule of Desk) کے لیے بنائی تھی، یعنی جو بھی اس میز کے پرلی طرف کرسی پر بیٹھے ، اُس کے ایک حکم پر عوام الناس کی خدمت اور روکے ہوئے کاموں کو ممکن بنا یا جا سکے ۔ تاہم ایشیائی ممالک اور جس طلسماتی ملک کا میں ذکر کر رہا ہوں ، وہاں یہ طے پایا کہ بیوروکریسی ایک نظریے کا نام ہو گا۔ جس کو محض عقلی پیمانے پر پرکھا جاسکے گا۔ لہٰذا اس نظریے کے تحت ایک خاص مشن کو ترجیح بنالیا گیا۔ وہ ترجیح یہ تھی کہ ہر سرکاری ملازم عوام کے کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے دس بار سوچے ۔ اُس کام میں جتنے روڑے اٹکائے جا سکتے ہیں، اٹکائے جائیں ۔ ایمانداری سے کوئی کام کرنے سے مرنا بہتر ہے ۔ آدھے بھر ے ہوئے گلاس کو ہمیشہ آدھا خالی قرار دیں۔ کام میں جلدی کرنے سے سستی کئی درجے افضل ہے ۔ اچھی کارکردگی کے بجائے اچھی چاپلوسی کے فن کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں ۔ اگر آپ بہت زیادہ کام کے عادی ہیں تو آپ نے سراسر غلط شعبہ چن لیا ہے ۔ آپ کے اندر یہ مہارت ضروری نہیں کہ آپ کام کتنا اچھا کرتے ہیں بلکہ آپ کے اندر یہ کما ل ہونا ضروری ہے کہ آپ کسی نکمے پن سے کئے ہوئے کام کو کتنی اچھی طرح سے بیان کرتے ہیں ، آپ کے اندر یہ صلاحیت بھی ہونا چاہیے کہ آپ بارہ افراد پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی بنائیں، جو ایک فرد جتنا کام کرے ۔ دفتر یا کسی بھی جگہ تاخیر سے پہنچنے کو معمول بنائیں اور اُس پر کبھی شرمندہ نہ ہوں ۔ اگر کام پر آچکے ہیں تو نو گھنٹے بغیر کام کے بیٹھنے کی عادت ڈالیں ۔ ہمیشہ اس انتظار میں رہیں کہ چھٹی کب ہوگی۔ کوشش کریں کہ ایسا شعبہ تلاش کریں، جس میں کم سے کم کام کرنا پڑے، جیسے آثار قدیمہ ، جہاں سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہے اور نیا کچھ بنانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ محنت نے کبھی کسی کی جان نہیں لی لیکن ایسا موقع ہی کیوں دیں ۔ افراتفری کے عالم میں پر سکون رہیں ۔ غلطی ایک بار کرنے سے بار بار کرنے میں کہیں زیادہ فضیلت ہے ۔ فکر مند کام کرتا ہے ۔ لہٰذا ہمیشہ بے فکر رہیں ۔ اپنی حماقتوں کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے ، اُن پر ہنسیں۔ کوشش کریں ایسے دوست بنائیں جو آپ کے لیے تحائف لے کر آئیں ۔ یاد رکھیں ایک اچھا بیورو کریٹ یا سفارت کار آپ کو جہنم کی اتنی خوبیاں بتاتا ہے کہ آپ جہنم میںجانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ بیورو کریسی میں کسی دوسرے کے اچھے خیالات چُرانا عین عبادت ہے ۔ ہر اُس شخص سے نفرت کریں جو کہے کہ مجھے کام کرنا پسند ہے ۔ ہدف ، گول اور عزم کے ساتھ زندگی گزار کر زندگی ضائع مت کریں ۔
اُس ملک کے سرکاری افسران اور خاص طور پر بیوروکریٹ اوپر بیان کئے گئے تمام اصولوں پر گامزن تھے ۔ اُس ملک کے ساتھ واقع ایک اور ملک جس کا نام ہندوستان تھا۔ وہاں بھی سرکاری افسران بنانے کے کئی کارخانے تھے ۔ لہٰذا وہاں کے سرکاری ملازمین کے روئیے اور مزاج ویسے ہی تھے ۔ ایک بار ایک ہندوستانی مر گیا ۔ اُسے حکم دیا گیا کہ وہ جہنمی ہے ۔ مگر وہ کس ملک کی جہنم میں جانا چاہتا ہے یہ چوائس بھی اُسے دی جاتی ہے۔ ہندوستانی پہلے جرمن جہنم میں جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہاں کیا معاملات ہیں ۔ جہنمیوں کو کیسی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ اُسے بتایا گیا کہ جہنمی کو پہلے ایک گھنٹے کیلئے الیکٹرک کرسی پر بٹھا کر بجلی کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں پھر ایک گھنٹے کے لیے کیلوں کے بستر پر لٹایا جاتا ہے پھر شیطان آتا ہے اور باقی سارا دن آپ کو کوڑے مارتا ہے ۔ہندوستانی اتنی سخت سزائوں سے ڈر کر امریکی جہنم کا رُخ کرتا ہے جہاں جرمن سزائیں ہی لاگوہیں ہندوستانی کسی نئے ملک کی جہنم کا رُخ کرتا ہے، وہاں بھی قریباً وہی سزائیں دی جا رہی ہوتی ہیں۔
ہندوستانی جب اپنے ہی ملک کی جہنم کے باہر پہنچتا ہے تو وہاں لوگوں کی لمبی قطار دیکھ کر حیران ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ تمام لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ سب جواب دیتے ہیں کہ وہ اندر جانے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ جہنمی کو مزید کرید نے پر پتا چلتا ہے کہ یہ جہنم ہے تو باقی جیسی ہی مگر یہاں کے بیورو کریسی کے سسٹم کی خرابی کی وجہ سے بجلی کی کرسی خراب ہو چکی ہے ۔ کیلوں والے بستر سے کسی نے سارے کیل چرا لیے ہیں ۔ پیچھے بچا کوڑے مارنے والا شیطان وہ ہندوستانی حکومت کا سابق بیوروکریٹ ہے ، جب وہ کوڑے مارنے کے لیے اندر آتا ہے ۔ رجسٹر پر دستخط کرتا ہے اور پھر کیفے ٹیریا چلا جاتا ہے۔
وہ جہنمی خوش ہو کر ہندوستان کی جہنم کی قطار میں کھڑ ا ہونے ہی لگتا ہے کہ اچانک اُس کی نظر اپنے پڑوسی ملک کی جہنم کے مرکزی دروازے پر پڑتی ہے ۔ جہاں اندر جانے والوں کا رش ہندوستان کے جہنم سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔ وہ قریب آکر پوچھتا ہے کہ بھائیو! یہاں اتنا رش کیوں ہے ؟ قطار میں کھڑا ایک شخص جو اب دیتا ہے ۔ بھائی جی ہم سب لوگ اس ملک کی جہنم میں جانا چاہتے ہیں، مگر یہاں کے افسران چونکہ عوام کی بھلائی یا خدمت کے عادی نہیں ہیں ۔ لہٰذ ا کہہ رہے ہیں کہ ایک کمیٹی بنا رہے ہیں ، جس کے نام حکام بالا کو بھیجے جائیں گے ۔
کمیٹی کے ناموں کی منظوری پر کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔ وہ سفارشات دوبارہ حکام بالا کو بھیجے جائیں گے ۔ پھر حکام بالا جو بھی فیصلہ کریں گے اُس پر عمل ہو گا اور ہاں اگر کمیٹی کے ناموں پر اتفاق نہ ہوا تو پھر کمیٹی بنے گی پھر کمیٹی بنے گی ۔ پھر پھر پھر۔۔۔۔۔
ہندوستانی کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔ وہ خوشی سے بولا ۔ بھائی مجھے کوئی جلدی نہیں ۔ قطار میں کھڑا شخص بولا۔ بھائی صاحب جلدی تو مجھے بھی نہیں ہے ۔ تاہم اس بات کو ضرور ذہن میں رکھیں کہ میں آٹھ د س سا ل کا تھا ، جب اس قطار میں آکر کھڑا ہوا تھا۔ اب چالیس پچاس کا ہونے والا ہوں۔ہندوستانی جہنمی نے یہ بات سنی تو قطار سے فوراً نکل کر خوشی سے قلابازیاں کھانے لگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Click to listen highlighted text!