تازہ ترینخبریںپاکستان

مقدمہ ختم،عدالت کا جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو فوری رہا کرنیکا حکم

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دفاعی تجزیہ کار اور ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف دائر مقدمے ختم کرتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں آج بروز جمعرات 2 مارچ کو امجد شعیب کے خلاف سرکاری ملازمین کو حکومت کے خلاف اکسانے کے مقدمے کے خلاف دائر ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت کی جانب سے درخواست ضمانت پر کچھ دیر کیلئے فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

درخواست ضمانت پر سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ کے جج عباس شاہ نے کی۔ اس موقع پر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت کے روبرو اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل میاں اشفاق نے کہا کہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خلاف کسی بھی پبلک سرونٹ نے مقدمے کی درخواست نہیں دی، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے الفاظ پر کیس نہیں بن سکتا، امجد شعیب کے خلاف مقدمہ بوگس ہے، انہوں نے کسی کمیونٹی کےخلاف بات نہیں کی۔ امجد شعیب نے جو جو پروگرام پر کہا اس کو تسلیم کرتے ہیں، اگر دوبارہ ہمیں بلایا جائے گا ہم پھر وہی بات کریں گے۔ ہم ہر جگہ وہ بات کریں گے، ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔ ہمیں پھر بھی بلایا جائے گا تو پروگرام میں وہی بات کریں گے۔

وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان میں 6 لاکھ آرمی افسر ہیں، اور کروڑوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین ہیں، ‏کروڑوں کے سرکاری ملازمین میں سے کس نے آکر آپ کو شکایت کی کہ ہم اس بیان سے متاثر ہوئے ہیں، کتنا بڑا المیہ ہے ایک سابق فوجی جرنیل کے ‏جیل کے کمرے میں کیمرہ لگا ہوا ہے، ‏رات دس بجے پروگرام چلا 11 بجے ختم ہوا، پوری قوم سو رہی تھی، دوسرے دن بھی کروڑوں سرکاری ملازم سوتے رہے اور کوئی ایک بھی درخواست لیکر نہیں آیا، ‏کروڑوں سرکاری ملازمین نے امجد شعیب کی درخواست کی ایسی گھٹیا تشریع نہیں کی جو اویس خان نے کی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے الفاظ اتنے سخت نہیں جتنے حکومت کے رویے ہیں، دفعہ 505 کے تحت یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں، سارا رونا دھونا الیکشن کراؤ سے متعلق تھا اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کروائیں، اگر فیصلہ پہلے ہو چکا ہوتا تو ایسا پروگرام ہی نہیں ہوتا۔

دوران سماعت جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق کی جانب سے پروگرام کا ٹرانسکرپٹ پڑھا گیا۔ اور عدالت کے روبرو کہا کہ پروگرام میں امجد شعیب کی جانب سے ”اگر، مثال کے طور“ کے الفاظ استعمال کیے گئے۔

امجد شعیب کا جج سے مکالمہ

سماعت کے موقع پر مدعی امجد شعیب نے روسٹرم پر آنے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر امجد شعیب نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ دھرنے اور لانگ مارچ کی مخالفت کی، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کیا دھرنے سے یا لانگ مارچ سے کبھی کوئی حکومت گرائی ہے، میرا تجزیہ ہوتا ہے، کبھی میرے تجزیہ پر عمل نہیں ہوا، میری کبھی کسی سیاسی رہنما سے ملاقات نہیں ہوئی، توڑ پھوڑ سے اپنے ہی ملک کو نقصان ہوتا ہے،اپنے ہی لوگ پریشان ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ماضی کی بات کر رہا تھا کہ کبھی دھرنوں اور ریلی سے کوئی حاصل وصول نہیں ہوا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنی ایف آئی آر میں آج بھی دیکھتے ہیں کہ للکارا کا لفظ استعمال ہوتا، کیا یہ آپ کا للکارا تو نہیں تھا جس کی بنیاد پر مشورہ دیا گیا ہو، آپ کا مؤقف سن لیا میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔

وکیل میاں اشفاق کی جانب سے عدالت سے جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے کیس کو ختم کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ امجد شعیب محب وطن اور اس ملک کے معزز شہری ہیں۔ عدالت یہ مقدمہ ختم کر دے۔ امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر عدنان کی جانب سے جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد ازاں دونوں جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کیلئے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس ختم کرنے اور امجد شعیب کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔

حامی وکلا کو روک دیا گیا

آج ہونے والی سماعت کے موقع پر ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سِپرا کی عدالت کے باہر خاردار تاریں لگائی گئی تھیں۔ اس دوران لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب سے اظہار یک جہتی کرنے والے وکلاء کو عدالت کے باہر ہی روک دیا گیا، جس پر وکلاء کی جانب سے عدالت کے باہر نعرے لگائے گئے۔ صورت حال قابو کرنے کیلئے اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری ایڈیشنل سیشن جج طاہرعباس سِپرا کی عدالت کے باہر تعینات کی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button