
خاندان تربیت اور تقاضے .. عبدالرشید مرزا
عبدالرشید مرزا
خاندان انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔اگر خاندانی نظام میں موجود افراد کی تربیت درست نہج پر ہو تو ایک عظیم قوم وجود میں آتی ہے۔ خاندان ایسا ادارہ ہے جو انسانی رویئے اور طرز عمل کی تشکیل کرتا ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے معاشرتی تربیت ہوتی ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جو فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اسے فرق مراتب کا شعور بخشتا ہے۔ اگر خاندان کا استحکام کم ہو جائے تو انسانی طرز عمل، معاشرتی فرائض کا شعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا یقین سب کچھ ختم ہو جائے گا۔خاندان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار قرآن مجید نے واضح کر دیا ہےکہ ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اور پتّھر ہوں گے‘‘۔ (التحریم: 6) اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی اہم ہدایت (جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر و کوشش کرنا۔ بلاشبہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے، جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:’’جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا‘‘۔ (آل عمران: 185)۔ ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریمﷺ کی مخلصانہ اطاعت پر۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسولﷺ کے مطابق اپنے حالات سدھاریں، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر سیدنا عمر ابن خطابؓ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا (کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دور رہیں)، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟
آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو، اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا۔ (روح المعانی) جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اپنے قبیلے و خاندان کے لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے ڈراو‘‘۔ (الشعراء: 214) تو نبی کریمﷺ نے قبیلۂ قریش کی تمام شاخوں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا۔ آخر میں سیدہ فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے: ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو، لیکن(یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ (صحیح بخاری)خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ سے مغربی معاشرے میں انتشار اور بگاڑ اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ بیوی اور شوہر میں باہمی محبت و اعتماد اور احترام باقی نہیں رہا۔ مغرب اپنے خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا چاہتا ہے مگر کیسے بچائے؟ اس کے لیے اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ مغرب اور اہل مغرب کے بارے علامہ اقبالؒ نے درست فرمایا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہَ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
انسان کی تربیت ایسے ہوتی ہے جیسے پودا لگانے کے لیے بیج لگایا جاتا ہے اس کو پانی دیا جاتا ہے گرمی سردی سے بچایا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ سوکھے پتوں کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے سپرے کیے جاتے ہیں بالکل اسی طرح ایک بچے کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس کو سازگار ماحول مہیا کیا جاتا ہے حلال حرام کی تمیز سکھائی جاتی ہے اچھے برے کا فرق سمجھایا جاتا ہے اخلاقیات،سچ، جھوٹ،امانت داری، احسان، محنت،حقوق کی پاسداری مستحق لوگوں کی مدد کی تربیت دی جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو اقرارِ عالیہ کا خوگر بنائے اور اُسے اخلاقِ حُسنہ کا خوبصورت مجسمہ بنانے کی کوشش کرے بالکل اُسی طرح جیسے حضرت فرید الدین گنج شکر کی ماں اُنہیں نمازی بنانے کے لیے جائے نماز کے نیچے شکر کی پُڑیا رکھ دیتی تھی اگر بابا فریدؒ کی ماں ایسا کرسکتی ہے تو کیا آج کی ماں اس طرح کی کوئی انوکھی تدبیر نہیں کرسکتی؟پائے دار، انفرادی اور اجتماعی ترقی میں خاندان کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرہ تربیت یافتہ انسانوں سے بنتا ہے اور تربیت یافتہ انسان خاندان سے بنتا ہے۔ ایک کہاوت کا مفہوم ہے، ایک بچے کی پرورش کے لیے پورے گاؤں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت یعنی ٹریننگ کتابوں اور ٹریننگ سیشنز میں نہیں، بلکہ گھروں میں خاندان کے تعلقات، کردار اور ماحول سے ہوتی ہے۔ میں نے اپنی اب تک کی زندگی کے مشاہدے اور براہ راست زندگی کے تجربات کے مطالعے سے اخذ کیا ہے کہ بہت سارے باصلاحیت اور ذہین لوگ گھریلو مسائل، لڑائی جھگڑوں، الجھنوں اور خاندانی سیاست اور سازشوں کی وجہ سے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ میرا ماننا ہے اگر آپ کو خاندان کی جانب سے سپورٹ نہ ہو تو آپ کی زندگی کا سفر بہت دشوار ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہماری آدھی سے زیادہ زندگی، توانائی اور وقت اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو منانے، کھلانے اور سمجھانے میں ہی صَرف ہوجاتا ہے۔ ذرا غور کریں، جس معاشرے میں کسی بھی آرٹسٹ کو ابتدا میں گھریلو اعانت نہ ملے وہ بے چارہ اپنی گھریلو ذمے داریوں میں ہی پس جاتا ہے۔ ایسے مادہ پرست معاشرے میں وقتی اور معاشی طور پر گزر بسر کرنے کے لیے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا جوہر دکھانے والے پھر نمائشی اور وقتی فن کار تو ہو سکتے جینوئن اور حقیقی آرٹسٹ نہیں بن سکتے۔
اس مضمون میں ہم کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کے فرد واحد کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی میں کردار پر گفتگو کریں گے۔ ساتھ ہی بدلتے وقت، معاشی اور عصری تقاضوں نے کس قدر خاندانی اقدار، اتحاد اور بنیادی کردار کو متاثر کیا ہے، پر بھی بات کریں گے۔جدید ٹیکنالوجی، معاشی ترقی اور تیز رفتار زندگی نے سب سے زیادہ جس چیز کو متاثر کیا ہے وہ خاندان ہے۔ مغرب ہو یا مشرق۔ سب جگہ خاندان کی اہمیت اور حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ خاندانی نظام اور نظم وضبط پر بھی سوال اُٹھے ہیں، خاندان کے مقصد اور افادیت پر سوالیہ نشان ہیں، لیکن اس کے باوجود کسی بھی طرح سے نہ معاشرے اور نہ ہی فرد واحد کی زندگی میں اس کی اہمیت کم ہوئی ہے، بلکہ اس وقت معاشی ابتری، ذہنی و نفسیاتی کشمکش اور اخلاقی ومذہبی اقدار کی پامالی کی بڑی وجہ مستحکم، مضبوط اور متوازن خاندان کا نہ ہونا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ جس خاندانی نظام اور اُصول وضوابط کا تصور ہمارے ذہنوں میں ہے یا ماضی میں ہمارے معاشرے کا حصہ رہا ہے ، اب ایسا تصور مشکل اور ناممکن سی بات ہے۔ وقت، حالات اور خاندانی تقاضے بدل چکے ہیں، اس لیے خاندانی نظام کو بھی جدید عصری تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ (جاری ہے)