Editorial

1973ء کا دستورِ پاکستان

قومی اسمبلی نے دس اپریل 1973ء کو پاکستان کے پہلے متفقہ دستور کی منظوری دی، جس کے بعد 14 اگست 1973ء کو دستور پاکستان نافذ العمل ہوا۔ دستور پاکستان صدارتی کی بجائے پارلیمانی طرزہے لہٰذا صدر مملکت کی بجائے تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں قبل ازیں 1956ء کا پہلا اور 1962ء کا دوسرا دستور تھا لیکن ان میں موجود بعض قباحتیں وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہیں یہی وجہ تھی کہ ایسے دستور کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی جوتمام اکائیوں کا متفقہ ہو اور اِس میں ہمارے معاشرے کا مکمل تحفظ یقینی ہو لہٰذا 1973ء کو پاکستان کے پہلے متفقہ دستور کی منظوری دی گئی، اور آج یہ دستور ہر پاکستانی کے تحفظ کا ضامن ہے۔ دستور پاکستان کو پہلی چوٹ تب پہنچی جب جنرل ضیا الحق نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکاکر اقتدار پر قبضہ کرلیا، اِس کے بعد مرحوم جنرل پرویز مشرف نے بھی جمہوری حکومت کو گھر بھیج کر اقتدار پرقبضہ کرلیا لہٰذا دستور پاکستان کے ساتھ کھلواڑ صرف اقتدار پر قابض ہونے والے جرنیلوں نے ہی نہیں کی بلکہ جمہوری ادوار میں بھی بعض ترامیم متعارف کرائی گئیں جن کو حزب مخالف نے مسترد کردیا لہٰذا دستور میں ترامیم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قابل قدر کارناموں میں منتشر قوم کو متفقہ دستور دینا بھی سرفہرست ہے، دستور پاکستان متفقہ طور پر منظور اور نافذ العمل ہوا لہٰذا سبھی اِس دستور کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، کہیں بھی معاملات بگاڑ کی جانب جانے لگیں تو دستور پاکستان سے رہنمائی کے لیے رجوع کیا جاتا ہے، پس دستور پاکستان کو جس جانفشانی سے تیار کیا گیا ہے اِس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے لہٰذا اگر کہیں ہم اٹک جائیں تو اِس میں دستور پاکستان کا نہیں بلکہ ہماری نوعیت کا قصور سمجھا جانا چاہیے کہ ہم دستور پاکستان سے رہنمائی لینے کی بجائے اِس میں موشگافیاں ڈھونڈتے ہیں ۔ دستور پاکستان کے صفحہ اول سے آخر تک ہر شق اور ہر قانون تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے، جہاں دستور شکنوں کو سخت ترین سزا دینا بتایا جاتا ہے تو وہیں ہر پاکستانی کو باعزت طریقے سے حقوق بھی دیئے گئے ہیں، تعلیم، صحت، امن و امان، حق رائے دہی، اداروں کے فرائض اور حدود، سبھی کی حد بھی مقرر اور اُن کے کاموں کی وضاحت بھی، مگر مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب ہم دستور پاکستان میں مقرر حد سے تجاوز کرتے ہیں اور دستور سے ہٹ کر کوئی نئی چیز متعارف کراتے ہیں جس میں انفرادی مفاد کو مقدم رکھا جاتا ہے اِس کے برعکس وہ قوانین جو ملک و قوم کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور اِن کا واحد مقصد ملک و قوم ہوتاہے ، اُن قوانین کو قومی سطح پر سراہا بھی جاتا ہے مگر یہ کہتے ہوئے افسوس بھی ہوتاہے کہ اکثر و بیشتر منتخب نمائندے ملک و قوم کی ضروریات اور حالات کے تقاضوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین متعارف کرادیتے ہیں۔بلاشبہ جدید تقاضوں اور حالات کے مطابق دستور میں متفقہ ترامیم ضرور ہونی چائیں لیکن اِن کا واحد مقصد ملک و قوم کا مفاد ہونا چاہیے، مگر ہوتو یہ رہا ہے کہ کوئی اقتدار کو طوالت دینے کے لیے من مرضی کررہا ہے تو کوئی اپنے ’’اعمال‘‘ چھپانے اور بچانے کے لیے دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر دستور پاکستان کے حقیقی تشخص کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دستور پاکستان پر من و عن عمل کیا جائے تو وطن عزیز امن و امان کا گہوارہ بن جائے،ہر پاکستانی کو یکساں حقوق حاصل ہوں، تعلیم، صحت، ترقی، خوشحالی کے مواقعے سب کے لیے یکساں ہوں، پروٹوکول اور اِس جیسی خرافات کا کہیں تصور نہ ہو، دستور پاکستان مفت تعلیم اور صحت کا حکم نہیں دیتا؟ کیا دستور پاکستان روٹی، کپڑا اور مکان ریاست کی ذمہ داری قرار نہیں دیتا؟ دستور پاکستان امیر و غریب کو یکساں حقوق نہیں دیتا؟ تمام غیر مذاہب کو اُن کی مکمل مذہبی آزادی نہیں دیتا؟ غرضیکہ دستور پاکستان ہر پاکستانی کو مکمل تحفظ دیتا ہے، مگر دستور پاکستان کی وہ تمام شقیں اور بنیاد جس میں مفاد عامہ کی بات کی گئی ہے ہر جمہوری طاقت اُس پر عمل کرنے سے گریزاں رہی ہے لہٰذا ہر پاکستانی خصوصاً متوسط طبقہ 75 سال سے منتظر ہی رہا ہے کہ اِس کو دستور پاکستان کے مطابق حقوق اور آسانیاں دی جائیں، مگر صاحب ِ اقتدار ایک طرف دستور کے تحفظ کے لیے قربانیاں پیش کرنے کا اعادہ کرتے ہیں تو اگلے ہی لمحے دستور پاکستان کو موم کی ناک بناکر اپنے لیے موڑ لیتے ہیں اور عامۃ الناس منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں، آج معاشرے میں جو واضح تفریق نظر آرہی ہے اِس کی بنیادی وجہ ہی دستور پاکستان پر عمل نہ کرنا اور اپنا اپنا دستور نافذ کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ارباب اختیار کہتے ہیں کہ سبھی اپنی اپنی آئینی حدود میں رہیں مگر خود وہ ایسے عمل سے گذر چکے ہوتے ہیں جس میں دستور کی پامالی نظر آتی ہے۔ اگر ہم دستور پاکستان کو اپنی اصل شکل میں معاشرے پر نافذ کرلیں تو کونسے مسائل ہیں جو باقی رہ جاتے ہیں؟ بلاشبہ کوئی بھی مسئلہ زیادہ دیر تک مسئلہ نہیں رہے گا، تمام ستون اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی حدود کے مطابق کام کریں گے کیونکہ دستور پاکستان سبھی کو اُن کی حدود میںرہتے ہوئے کام کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ دستور پاکستان پر من و عن عمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے ، یوں ہم آپس میں اُلجھنے کی بجائے اپنے کام سے کام رکھیں گے اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کریں گے کیونکہ دستور پاکستان کسی کو اختیارات سے تجاوز کرنے کی چھوٹ نہیں دیتا۔ ترقی یافتہ اقوام کے راستے پر چلنے کے لیے دستور پاکستان کو حقیقی معنوں میں اپنی ذات پر نافذ کرنا ناگزیر ہے، وگرنہ سب ایسا ہی چلتا رہے گا، جیسا چل رہا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button