Editorial

شرح سود میں مزید اضافہ

 

پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کا شرح سود 2فیصد بڑھانے کا مطالبہ تسلیم کرلیا ہے، مرکزی بینک کے اعلان کے بعد شرح سود 17 فیصد سے بڑھ کر19فیصد ہوجائے گی اور اب پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین توانائی کے شعبے سے متعلق مذاکرات جاری ہیں جس کے بعد سٹاف لیول کا معاہدہ ہوجائے گا۔ مرکزی بینک کے مطابق تین دہائیوں میں زیادہ سے زیادہ شرح سود 20 فیصد تک رہی ہے۔ 1996 سے 1997 تک شرح سود 20 فیصد رکھی گئی اِس کے برعکس کم سے کم شرح سود 2016 کے دوران 5 اعشاریہ 75 رکھی گئی تھی۔ شرح سود میں اضافہ ان حالات میں کیاگیا ہے جب پاکستانی شہری تاریخ کی بلند ترین سطح کی مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، 2016 میں جب شرح سود بڑھائی گئی تب مہنگائی کی صورتحال ایسی نہیں تھی لہٰذا اُس وقت کے فیصلے کے برعکس موجودہ فیصلہ بلاشبہ معیشت اور عوام پر گراں گذرے گا، صنعتی شعبہ جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے مزید برے حالات سے دوچار ہوگا، یوں آئی ایم ایف کی شرائط معاشی ترقی کو کم سے کم کرتے رہیں گے، ایک طرف صنعتیں مشکلات کا شکار ہوکر بندش کی طرف جائیں گی تو دوسری طرف ان کی مصنوعات مہنگی ہونے کی وجہ سے عام مارکیٹ میں صارفین کا استحصال ہوگا۔ اگرچہ عالمی سطح پر تیزی سے بدلنے والے حالات کی وجہ سے سیاسی حکومت اور مرکزی بینک کو شرح سود بڑھانے جیسے مشکل اور اہم فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں لیکن حالیہ فیصلہ چونکہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر اور اِن حالات میں کیاگیا ہے جب ہمیں زیادہ سے زیادہ برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے مگر ہم برآمد کنندگان کی حوصلہ شکنی والے اقدامات کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمیں قرض چاہیے وگرنہ صورتحال مزید خراب ہوگی۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ معاشی مشکلات ضرور ہیں مگر ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں، مگر دیکھا جائےتو عملاً اشرافیہ کے سوا ہر پاکستانی اور پاکستانی انڈسٹری ڈیفالٹ کرچکی ہے یا ڈیفالٹ کے قریب ہے، سرمایہ داروں نے نقصان اٹھانے کی وجہ سے انڈسٹری کی تالہ بندی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ کوئی بھی اپنی جیب سے پیسہ شامل کرکے مصنوعات نہیں بیچتا اور جب معیشت کی صورتحال ایسی ہو تو پھر سرمایہ کار مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے بینکوں میںسرمایہ جمع کراکے منافع حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انڈسٹری حالیہ دنوں میں گھاٹے کا سودا بن چکی ہے اور کاروباری شعبہ آئی ایم ایف کی نئی نئی شرائط اور سیاسی بے یقینی کی وجہ سے پہلے ہی گبھراہٹ کا شکار ہے کیونکہ کوئی بھی سرمایہ کار اپنا سرمایہ وہیں لگاتا ہے جہاں اس کا سرمایہ محفوظ ہو اور اِس کو نفع ملے مگر ہمارے معاشی حالات پل پل بدلتے ہیں لہٰذا کوئی سرمایہ کار انڈسٹری میں سرمایہ لگانے کی بجائے مالیاتی بینکوں میں رکھنے کا آسان فیصلہ کیوں نہیں کرے گا۔ ڈالر کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے اور قلت کی وجہ سے بینک ایل سی نہیں کھول رہے اِس لیے بھی کئی انڈسٹریز یا تو بند ہیں یا پھر مہنگا ترین خام مال بلیک میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ اسی لیے برآمدات بھی ایک طرح سے رک گئی ہیں یا پھر انتہائی کم ہیں اور حالات جوں کے توں بھی رہیں تو کچھ اچھے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ مہنگی ترین بجلی اور گیس اور لاتعداد ٹیکسوں سمیت دیگر مسائل کے ساتھ ہم انڈسٹری میں خوشحال تو لانے سے رہے، البتہ موجودہ معاشی صورتحال میں انڈسٹری سے وابستہ لوگ بیروزگار ہورہے ہیں کیونکہ انڈسٹریز بند ہیں اور نو کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے ہیں مگر حالیہ مشکل ترین معاشی فیصلوں کی زد میں ہیں۔ معاشی ٹیم ڈیفالٹ کے خطرات سے ملک کو نکالنے کے لیے کوششیں کررہی ہے اور بلاشبہ آئی ایم ایف کےساتھ معاملات مثبت طریقے سے آگے بڑھنا معاشی ٹیم کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے مگر کسی لمحہ رُک کر سوچنا چاہیے کہ جو طوق ہم قرض کی صورت میں گلے میں ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں کیا وہ ہمارا ہر قدم بوجھل نہیں کردے گا؟ ہمارے پاس ایسا ہے ہی کیا جس کو برآمد کرکے ہم ڈالر کمائیں گے اور قرضوں کی ادائیگی کردیں گے، آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس برآمدات بڑھانے کا کوئی جامع پلان ہے اور نہ ہی ہماری انڈسٹری میں اتنی سکت ہے کہ وہ ہمارے اٹھائے ہوئے قرض کا بوجھ کچھ سال میں اُتار سکے، لہٰذا مشکل کو معاشی ترقی کی طرف گامزن کرنے کی بجائے معاشی غلطیوں کا سارا بوجھ عوام اور کاروباری شعبے پر منتقل کرنا قطعی دانشمندی معلوم نہیں ہوتا، بارہا اعتراف کرنا کہ ہم سیاسی قیمت ادا کررہے ہیں، کافی نہیں بلکہ عوام کی جانب دیکھا جانا چاہیے کہ سفید پوش کا معیار زندگی اب غربت کی لکیر کو چھو رہا ہے پہلے خانہ بدوش اور غربا قابل رحم تھے اب سفید پوش طبقہ اُن کی جگہ لیکر غربت کی لکیر تک پہنچ چکا ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، شرح سود بھی 19 فیصد ہونے جارہی ہے، ڈالر کا بحران سنگین صورتحال پیدا کررہا ہے، برآمدات بڑھنے کی بجائے کم ہورہی ہیں کیونکہ ملکی انڈسٹری کے لیے کوئی وسیع اور موثر پالیسی ہے ہی نہیں ،بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے معیشت میں مختلف مسائل سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں، ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ وہی ممالک ترقی کرتے ہیں جن کی ترقی کی بڑی وجہ برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، ہم برآمدی انڈسٹری کے لیے کچھ نہیں کرپارہے۔ شرح سود میں اضافہ بھی مہنگائی کی لہر میں مزید شدت کا باعث بنے گا، مگر چاروناچار ہمیں ایسے فیصلے کرنا پڑیں گے کیونکہ اور کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی۔

جواب دیں

Back to top button