ColumnRoshan Lal

جاوید اختر کی بات کا بتنگڑ .. روشن لعل

روشن لعل

 

شہر لاہور میں ، ماہ فروری کے دوران ،یکے بعد دیگر پاکستان لٹریری فیسٹیول اور فیض فیسٹیول کے نام سے دو بڑے میلے منعقد ہوئے۔ مذکورہ دونوں میلوں کے رنگوں میں کچھ ایسی بھنگ پڑی کہ ان کے انعقاد پر بھاری سرمایہ خرچ ہونے کے باوجود وہ کچھ برآمد نہ ہو سکا جو ہونا چاہیے تھا۔ ان میلوںکے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے کوئی اور نہیں، ان کے منتظمین ہی تھے۔سابقہ وزیر اعظم نوازشریف کے پرنسپل سیکریٹری رہ چکے، فواد حسن فواد نے عمران خان کی حکومت میں چاہے جتنا عرصہ بھی جیل میں گزارا اور ان کی شاعری کا معیار چاہے جو بھی ہے ، مگروہ خود پر عائد الزامات سے بریت کے باوجودبھی ا تنے غیر متنازعہ تصور نہیں کیے جاسکتے تھے کہ ان کی کتاب ’’کنج قفس ‘‘ کو پاکستان لڑیری فیسٹیول میں گفتگو کے لیے منتخب کیا جاتا۔ لٹریری فیسٹیول کے منتظم اعلیٰ احمد شاہ کو نہ جانے کس نے فرمائش کی کہ انہوں نے ایک مکمل سیشن فواد حسن فواد کی کتاب کے لیے وقف کر کے اچھے بھلے فیسٹیول کو متنازعہ بنا دیا۔ پاکستان لٹریری فیسٹیول ،فواد حسن فواد کی کتاب کے لیے سیشن وقف کیے جانے کے بعد متنازعہ ہوا جبکہ فیض فیسٹیول بھارت سے آنے والے معروف شاعر اور میڈیا پرسن جاوید اختر کی گفتگو میں ممبئی حملوں کے خاص انداز میں کیے گئے ذکر کے بعد متنازعہ بنا۔ جس طرح پاکستان لٹریری فیسٹیول کے متنازعہ ہونے کی ذمہ دار اس کے منتظم ہیں اسی طرح فیض فیسٹیول کو متنازعہ بنانے میں اس کی انتظامیہ کا کردار
ہے۔ جاوید اختر بذلہ سنج ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر دریدہ دہن ہیں یہ بات فیض فیسٹیول کی انتظامیہ کے لیے کوئی راز نہیں ہونی چاہیے تھی۔ فیض فیسٹیول کے منتظمین کے ذہنوں سے یہ بات بھی محو نہیں ہونی چاہیے تھی کہ جاوید اختر کو ایک خاص وجہ سے مشرف کے دور میں حکومت پاکستان نے اس وقت ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا جب پاک بھارت تعلقات انتہائی تیزی سے بہتر ہورہے تھے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جاوید اختر نے اپنے بیٹے فرحان اختر کی فلم ’’لکش‘‘ کے ایک ایسی کہانی لکھی تھی کہ ہماری حکومت نے انہیں پاکستان کا ویزا دینا گوارا نہ کیا۔ کارگل کی جنگ سے ماخوذ فرضی کہانی پر بنائی گئی ’’لکش ‘‘اسی طرح کی ایک فلم تھی جس طرح بھارت میںیک طرفہ پراپیگنڈہ کے تحت بارڈر، 1971 ، ایل او سی کارگل اور اری سرجیکل سٹرائیک نام کی فلمیں بنائی گئی تھیں۔پاکستان اور بھارت میں اس طرح کی فلموں کا بننا کوئی انہونی بات نہیں مگر جب کسی فلم کی کہانی کے ساتھ جاوید اختر کا نام جڑا ہو تو ذہن میں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ اس فلم میں تلخیوں کی عکاسی کے باوجود کہیں نہ کہیں امن اور پیار کا پیغام ضرور موجود ہو گا لیکن فلم ’’لکش‘‘ میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ جاوید اختر نے اگر بھارتی نقطہ نظر کے مطابق کسی فلم کی کہانی لکھ بھی دی تواس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں یہ بات بیان کرنے کا مقصد کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں بلکہ یہ ہے کہ فیض فیسٹیول کی انتظامیہ کو مجمع عام میں اپنے مہمان کی گفتگو کا پروگرام تشکیل دیتے وقت یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ صاحب گفتگو کا میلان کیا ہے اور وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔ فیض فیسٹیول کے منتظمین نے ایسی کسی بات کو مد نظر نہیں رکھا اور بغیر سوچے سمجھے حاظرین اور مہمان جاوید اختر کے درمیان ایسے براہ راست مکالمے کی راہ ہموار کردی جس کے تسلسل میں سوشل میڈیا پر اس قسم کے زبانی دنگل شروع ہو چکے ہیں جن میں صرف پاکستانی ہی آپس میں برسر پیکار نہیں ہیں بلکہ بھارت اور سمندر پار کے لوگ بھی ایک دوسرے کے کپڑے اتارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اگر فیض فیسٹیول کے منتظمین نے براہ راست زبانی سوالوں کی بجائے حاظرین کی طرف سے تحریری طور پر پوچھے گئے سوال فلٹر کر کے اپنے مہمان کے سامنے رکھنے کا انتظام کیا ہوتا تو وہ بدمزگی دیکھنے کو نہ ملتی جو اب دکھائی دے رہی ہے۔ جو لوگ خود پر لازم فرض سمجھ کر جاوید اختر کے ممبئی حملوں سے متعلق بولے گئے چند لفظوںپر کچھ بھی بولے جارہے ہیں ان کی اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ حقیقت میں ان سے کیا سوال پوچھا گیا اور انہوں نے ہو بہو کن الفاظ میں جواب دیا تھا۔
جو کچھ الحمرا لاہور میں ہوا وہ کچھ یوں تھا کہ براہ راست سوال و جواب کے مرحلہ میں ایک خاتون نے جاوید اختر سے یہ کہا کہ ہندوستان میں ہمارا امیج اچھا نہیں ہے مگر آپ جب یہاں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان کتنا پرامن ملک ہے اور یہاں کے لوگ کتنے پیار کرنے والے ہیں، یہاں کے لوگ جگہ جگہ بم نہیں مارتے، آپ بھارت میں لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ پاکستان ایک اچھا ملک ہے۔ اس موقف نما سوال کے جواب میں جاوید اختر نے کہا ’’آپ کی بات درست ہے ایک دوسرے کے بارے میں لاعلمی دونوں طرف ہے مہدی حسن جب وہاں آئے تو بہت بڑا فنکشن ہوا نورجہاں آئیں تو کیا شاندار استقبال تھا شبانہ نے کمنٹری کی تھی اور لکھی میں نے تھی، فیض جب آئے تو یوں لگتا تھا جیسے کسی سٹیٹ کا ہیڈ آیا ہوا ہے آگے پیچھے سائرن والی گاڑیاں ہوتی تھی اور وہ گورنر ہائوس میں ٹھہرتے تھے ٹی وی چینل کوریج کرتے تھے یہاں پی ٹی وی پر تو ساحر ،کیفی اور علی سردار کی کبھی کوئی کوریج نہیں ہوئی۔ اب تو پرائیویٹ چینل آ گئے ہیں جو پی ٹی وی پہ کبھی نہیں ہوا وہ پرائیویٹ چینلوں پر بھی نہیں ہوا یہ جو کمیونی کیشن پر بندش ہے یہ کوشش ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نہ جان سکیں، معاف کیجیے یہ دونوں طرف ہورہا ہے لیکن آپ کی طرف شاید تھوڑا سا زیادہ ہے، میں اس معاملے میں تکلف سے کام نہیں لوں گا اب یہ باتیں کم ہو رہی ہیں خوشی کی بات ہے ، ہم نے تو نصرت فتح علی کے بڑے بڑے کنسرٹ کرائے، مہدی حسن کے بڑے کنسرٹ ہوئے، آپ نے تو لتا منگیشر کا کوئی کنسرٹ نہیں کرایا، چلیے اب ہم ایک دوسرے کو الزام نہ دیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ گرم فضا کم ہونی چاہیے ہم تو ممبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا کہ جس طرح ہمارے شہر پہ حملہ ہوا تھا وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے وہ لوگ اب بھی یہاں گھوم رہے ہیں اگر یہ شکایت ایک ہندوستانی کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں منانا چاہیے۔
جاوید اختر نے اپنی گفتگو کے دوران ممبئی حملوں کے متعلق جو چند الفاظ بولے انہیں یہاں قریباً ہو بہو بیان کردیا گیا ہے ۔ جاوید اختر کی باتوں کو صرف اس زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا اس میں جھوٹ کیا اور سچ کتناہے ۔ اس معاملے میںزیادہ مضحکہ بات یہ ہے کہ غیر وابستہ لوگ توجاوید اختر کی باتوں کا بتنگڑ بناتے چلے جا رہے ہیں مگر فیض فیسٹیول کی انتظامیہ کوئی وضاحت پیش کرنے کی بجائے چپ کا روزہ رکھے بیٹھی ہے۔ افسوس کہ فیض کے نام پر فیسٹیول منعقد کرنے والوں میں کسی موقف کے اظہار کی جرأت ہی نہیں یا شاید میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کرنے کے علاوہ ان کا سرے سے کوئی موقف ہی نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button