ColumnImtiaz Ahmad Shad

خلق خدا کی مدد،حقیقی زندگی ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

زمانہ جوں جوں مادّی ترقی کر رہا ہے، آپسی محبت و تعاون کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے۔ ہر انسان کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ اس میں میرا کیا فا ئدہ ہے؟ اور اکثر و بیش تر کے نزدیک فائدے سے مراد مختصر دنیوی نفع ہے، جس کام میں انہیں کوئی نفع نظر نہیں آتا، اس میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، خواہ اس پر اللہ ا ور رسول اللہﷺ کی جانب سے کتنے ہی اجر و ثواب کے وعدے اور بشارتیں کیوں نہ ہوں۔ بات صرف اتنی نہیں کہ ہم برے وقت میں کسی کے کام نہیں آتے، طرّہ یہ ہے کہ اپنے مفاد کیلئے ہم کسی کو تکلیف پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے،حالانکہ بطور مسلمان ہمیں معلوم ہے کہ محتاجوں،غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کیلئے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے۔ خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ (سورۃ البقرۃآیت177)
سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواوں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کیلئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔دین اسلام سراسرخیر خواہی کا مذہب ہے، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیاگیا ہے۔ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے جو اطمنان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔ محسن انسانیت نبی کریم محمد ﷺ نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ ﷺ خود بھی غریبوں،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے اور ایک مرتبہ آپ ﷺ مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کیلئے آپﷺ کے پاس آئی، آپ ﷺ صحابہ کرام کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر،مطمئن کر کے اسے بھیج دیا۔آپ ﷺکا فرمان ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کیلئے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں۔ حدیث نبویﷺہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی سترپوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔ ارشاد نبوی ﷺہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا)رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ حضور ﷺنے فرمایا تمہارے خادم (محتاج) تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کردیا ہے۔پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جو کھانا خودکھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور اس سے ایسی مشقت نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپر د کر ے تو خود بھی اس کی مدد کر ے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے یقینا صدقہ اللہ ربّ العزت کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اوربری موت کو دور کرتا ہے۔‘‘(ترمذی) لیکن آج ہم دیکھیں اسلام کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر ہمارا طرز زندگی، ہمارا طرز معاشرت بہت عجیب سا ہوگیا ہے، بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور ہم اپنے بچے پر ضرورت سے زائد خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں اس بے حسی اور بے جا اصرا ف پر شرمندگی بھی نہیںہوتی۔ ہمیں فلاح انسانیت کیلئے اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا۔ جیسا کہ صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نبی ﷺ کے کہنے پر اپنی جان ومال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیا ر رہتے تھے، اسی طرح آج ہمیں بھی اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، ہمیں غور کرنا چاہیے کہ رشتہ داروں، غربائو مساکین، ہمسایوں اور ملازمین کے ساتھ ہمارا برتاوکیسا ہے۔ کہیں ہم اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے جہنم کا ایندھن بننے کی تیار ی تو نہیں کررہے۔ آج ہمیں خود کو نکھارنے، اور اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں، کیوں نہ دوسروں کیلئے جیا جائے، دوسروں کی مشکلات ومسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بٹایا جائے۔ ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے، کسی کی مشکل آسان ہوسکتی ہے، کسی مجبور کا علاج ہوسکتا ہے، کسی کے حصول رزق میں معاونت ہوسکتی ہے، کسی مجبور کی بیٹی کی شادی ہوسکتی ہے، کسی کے بچوں کا طرز زندگی بہتر ہوسکتا ہے، کسی کو حصول علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے لیے باعث اعزاز اور باعث راحت ہے۔لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کی جائے کہ دین و دنیاکی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو، یہی حقیقی زندگی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button