Editorial

وفاقی حکومت کی کفایت شعاری مہم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ملک میں ابھی مزید مہنگائی ہوگی جبکہ وفاقی وزرا، وزرا، وزیر مملکت، معاونین و مشیروں نے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کفایت شعاری کے اقدامات کے تحت سالانہ دو سو ارب روپے کی بچت ہوگی۔ قریباً ایک ماہ قبل قومی کفایت شعاری کمیٹی نے اپنی سفارشات وزیراعظم ہائوس کو ارسال کی تھیں۔ بلاشبہ وفاقی حکومت کے کفایت شعاری کے لیے اعلان کردہ اقدامات قابل تحسین ہیں لیکن جب تک اِن اقدامات کا دائرہ تمام صوبائی اور ضلعی حکومتوں اور اُن سے متعلقہ محکموں کی نچلی سطح تک وسیع نہیں کیا جاتا تب تک حقیقی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ کفایت شعاری مہم کے لیے ملک گیر سطح پر اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، کسی سطح پر تفریق نظر نہیں آنی چاہیے اور سبھی کو ایک قانون اور ضابطے کے مطابق دیکھاجانا چاہیے کیونکہ آزادی کے بعد مسائل، بحران اور نفاق ہی اسی لیے پیداہوئے ہیں کہ پوری قوم تقسیم کردی گئی ہے، امیر و غریب، با اختیار و بے اختیار اور ستم ظریفی یہ ہے کہ جو طبقات عام پاکستانیوں میں شمار نہیں ہوتے وہی طبقات عوام کے بالمقابل ہیں لہٰذا امیر اور غریب کے لیے قانون، ڈسپلن، شرائط، آسانیاں غرضیکہ سب کچھ مختلف ہے جبکہ امیر بااختیار بھی ہیں اور وہ کسی قانون کی زد میں نہیںآتے بلکہ ان کی مٹھی میں تمام طاقت ور ادارے ہیں۔ شاید یہ خیال بھی درست ہو کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کفایت شعاری مہم کا فیصلہ کیاگیا ہے یعنی قبل ازیں 75 سال ہم اپنے ملک کو روس، امریکہ، سعودی عرب اور دبئی سے زیادہ امیر اورطاقت ور گردانتے رہے ہیں ؟ اور بلاشبہ ہمارا ملک اشرافیہ اور طاقت وروں کے لیے ان ممالک جیسا ہی ہے کیونکہ اُن کے پاس وہ سب کچھ ہے جو عام پاکستانی کے پاس نہیں اور وہ اِن آسائشوں اورترطرز زندگی کے خواب دیکھنا بھی جرم سمجھتا ہے۔ جو غریب نہیں وہ غریب کے مسائل کیسے سمجھ سکتا ہے، جو وسیع و عریض بنگلوں میں شب و روزگزارتا ہے وہ بے گھر کے مسائل کیا جانے؟ جن کے مال و زر ڈالرز اور جواہرات کی شکل میں بیرونی ممالک بینکوں میں پڑے ہیں انہیں گھی، چینی، دال اور آٹا کی مہنگائی کاکیا احساس؟ لہٰذا زبانی جمع خرچ اور غربت کا لبادہ مسائل کا حل نہیں ہوگا۔ وطن عزیز شدید مالی بحران کاشکار ہے، قرض اٹھا، اٹھاکر ہم اپنا وقار عالمی برادری کے سامنے مجروح کرواچکے ہیں، غیر ملکی مالیاتی ادارے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ امیروں کی بجائے غریبوں کو سبسڈی دیں، غریبوں کے حال پر رحم کھائیں لیکن جناب والا! آپ ہمیں مزید مہنگائی کی نوید سنارہے ہیں، غیر ملکی مالیاتی اداروں کا کہنا بالکل درست ہے کہ امیروں کی بجائے غریبوں کے حال پر رحم کریں مگر کیا کریں ملک و قوم سے زیادہ ذاتی مفادات ترجیح ہوتے ہیں جبھی
اِن مفادات کے تحفظ کے لیے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ظاہر ہے کہ جب انفرادی مفاد سامنے ہوگا تو ملک و قوم کا مفاد کہیں نظر نہیں آئے گا کیونکہ دونوں متضاد چیزیں ہیں یا تو قربانی دیں یا پھر لیں پس اشرافیہ عوام سے قربانی لیے جارہے ہیں اور آئی ایم ایف باربار کہہ رہا ہے کہ عوام پررحم کریں کیونکہ عوام کی قابل رحم حالت غیر مسلموں کوتو نظر آرہی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو نہیں، جبھی ہربار عوام کو قربانی کے لیے پیش کردیاجاتا ہے، امریکہ، برطانیہ اور دوسری بڑی جمہوریتوں کو سامنے رکھیں تو وہاں کے حکمران جو درحقیقت پوری دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں اور ان کے پاس غالب آنے کی بھی طاقت ہے، ان کا رہن سہن ہمارے حکمرانوں سے یکسر مختلف ہے۔ٹین ڈائوننگ سٹریٹ 1735سے برطانوی وزرائے اعظم کی سرکاری رہائش گاہ رہی ہے یہیں سے دنیا کو متاثر کرنے والے فیصلے ہوتے رہے ہیں لیکن اس عمارت کا حجم ہمارے کسی کمشنر سطح کے افسر کی سکیورٹی کا دفتر معلوم ہوتا ہے، اسی طرح امریکی صدر کی رہائش گاہ و دفتر وائٹ ہائوس کو لے لیجئے ، پس ہمارا شاہانہ طرز زندگی عالمی طاقتوں اور اُن کے سربراہان سے کہیں زیادہ اوپر ہے ، شاید یہی طرز عمل ہمیں سیاست و اقتدار کی جانب لیکر آتا ہے وگرنہ ایسے محلات قرض مانگنے والے ترقی پذیر ملکوں میں قطعی نہ ہوتے۔ بہرکیف کفایت شعاری کا دائرہ مقامی حکومتوں تک وسیع کرنا چاہیے اور اِس عمل کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے، امرا سے مراعات لیکر اُن کو دینی چاہیے جو دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوچکے ہیں اور روزگار بھی خطرے میں ہے۔ جب تک ہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار کریں گے ملک و قوم بتدریج خطرات کی جانب بڑھتے رہیں گے۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کیاجائے اور ٹیکس بچانے کے تمام چور دروازے بند کرنے چاہئیں۔ اشیائے خورونوش اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں کا تعین کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے سبق سیکھا جائے۔ مافیاز کو نشان عبرت بنایا جائے جو حکومتوں پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ اقتصادی صورتحال کا فوری حل سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہ حکمران طبقہ اور دولت مند لوگوں اور سرکاری افسران کو حاصل ہر طرح کی سہولتوں کو ختم کر دیا جائے، اگرچہ یہ تجاویز بہت تاخیر سے دی گئی ہیں اور ان پر عمل در آمد میں بھی وقت لگے گامگر معاشی مشکلات کا حل یہی ہے کہ امرا سےلیا جائے اور اب عام پاکستانیوں کو دیاجائے، بالخصوص ٹیکس نیٹ کو وسیع کرکے ٹیکس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں سے دو دو ہاتھ کیے جائیں خواہ اِن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ ملک و قوم کے وسیع مفاد کی خاطر اب مصلحت پسندی کا رویہ بدلنا ہوگا ، ستر سال سے عوام کو نچوڑتے آئے ہیں اب مزید گنجائش باقی نہیں رہی، لہٰذا اُن کو پکڑیں جو ہمیشہ سے گرفت سے آزاد رہے ہیں اور آپ کے اطراف میں ہیں جن کا مقصد سیاست برائے فلاح نہیں بلکہ سیاست برائے تحفظ اور مفاد ہے۔ عوام خوشحال ہوگی تو اقوام عالم کے سامنے آپ کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button