تازہ ترینخبریںپاکستان

انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس، صدر، کے پی پنجاب گورنرز کو نوٹس جاری

لپپنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ از خود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر ریمارکس دیئے کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا، آئین میں انتخابات کا وقت بتایا گیا ہے جو ختم ہورہا ہے، اگر ایمرجنسی ہو تو ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کیلئے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقررکر دیتی، سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آگئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے تین معالات ہیں۔ وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے بتایا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے، اسے بھی ساتھ سنا جائے۔ ہم نے دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، انتخابات میں تاخیر کو مزید طول نہیں دے سکتے۔

سماعت آگے بڑھی تو اس دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سینیر وکلا کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں ان کی معاونت چاہیئے ہوگی، اس کیس کیلئے روٹین کے کیسز نہیں سنیں گے۔

جسٹس مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا

بار کونسل کا بینچ پر اعتراض

اس موقع پر پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

سماعت کے دوران ہی بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز اور جسٹس طارق مسعود کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ دونوں ججز سپریم کورٹ کے سینیر ترین ججز ہیں، ججز کو شامل نہ کرنے سے کیس میں غیر جانبداری ظاہر ہوتی ہے۔ بار کونسل نے امید ظاہر کرتے ہوئے اعلامیے میں کہا ہے کہ امید ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی رضا کاررانہ طور پر بینچ سے الگ ہوجائیں گے۔

3 سوالات

قبل ازیں از خود نوٹس پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا جائے گا، پہلا یہ کہ اسمبلی تحلیل ہونے پرالیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا ، انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اخیتار کب اور کیسےاستعمال کرنا ہے؟ تیسرا اور اہم سوال وفاق اور صوبوں کے عام انتخابات کے حوالے سے ذمہ داری کیا ہے؟۔

انتخابات کی تاریخ کون دے گا

سپریم کورٹ کے ریمارکس میں یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہوئے ایک ماہ سے زائد گزر چکا ہے ، ایک ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود تاحال انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی، صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جس پر اعتراضات اٹھائے گئے، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے۔

عدالت عظمیٰ کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کیسے اور کون دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن بھی سیکیورٹی سمیت فنڈز نہ ملنے کی شکایت کر چکا ہے۔

ن لیگ کا ججز پر اعتراض

دوسری جانب وفاقی حکومت نے 9 رکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے دونوں ججز ہمارے تحفظات کی وجہ سے بینچ سے علیحدہ ہوجائیں گے۔

علاوہ ازیں پاکستان بار کونسل نے بھی از خود نوٹس کیس میں 9 رکنی بینچ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اس معاملے پر فُل کورٹ بینچ بننا چاہیے تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button