Ali HassanColumn

دہشت گرد ی اور ہماری غفلت .. علی حسن

علی حسن

 

جنوری کے مہینے کی30 تاریخ تھی کہ پشاور میں خود کش حملہ ہوا۔ حملہ آور ایک فرد تھا جس نے ایک سو ایک افراد کی جان لے لی۔ حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھا جو مسجد میں کسی رکاوٹ اور پوچھ گچھ کے بغیر داخل ہونے میں کامیاب ہو ا اور نماز کی پہلی صف میں پہنچ گیا۔ پشاور کے حملہ کے عین بیس روز بعد جمعہ کے روز کراچی میں بھی دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا۔ دہشت گردوں نے کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی جاوید اوڈھو کے دفتر پر حملہ کیا۔ حملے سے متعلق تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہشت گرد مبینہ طور پر عقبی دیوار کود کر داخل ہوئے تھے ۔ذرائع کے مطابق پولیس لائن صدر کوارٹرز میں داخلے کا کوئی سکیورٹی گیٹ نہیں اور یہاں پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں۔ حملے کے وقت تینوں چوکیوں پر کوئی نہیں تھا اور عقبی دیوار پر خاردار تار ٹوٹی ہوئی بھی دیکھی گئی ہے۔کے پی او کی مرکزی شاہراہ پر سی سی ٹی وی کیمرا بھی نہیں ہے۔ دفتر مصروف علاقہ میں واقعہ ہے۔ دہشت گردوں کی تعداد تین تھی لیکن اخباری اطلاع کے مطابق تفتیشی حکام کو دہشت گردوں کے قبضے سے دو ایس ایم جی ملی ہیں، جن میں سے ایک ایس ایم جی سے نمبر مٹا ہوا ہے، ملنے والے کلاشنکوف کے بٹ پر لال رنگ لگا ہوا ہے۔ حملہ آوروں نے 4 دستی بم استعمال کئے جو پھٹے نہیں۔ ملنے والے چاروں دستی بموں کی پنیں نکلی ہوئی تھیں۔بی ڈی ایس حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے جسم پر نصب 2 خودکش جیکٹس، 8 دستی بم اور 3 گرنیڈ لانچر ناکارہ حالت میں ملے، دہشت گردوں سے برآمد خودکش جیکٹس 8 سے 10 کلو وزنی تھیں۔ دہشت گردوں سے 10 کے قریب سٹن گرینیڈ بھی ملے، جن میں دو استعمال شدہ تھے۔
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق حملے میں 4 افراد شہید اور 17 زخمی ہوئے تینوں دہشت گرد بھی مارے گئے۔ ایک دہشت گرد عمارت کی چوتھی منزل پر جبکہ دو چھت پر ماراگیا۔تفتیشی حکام کے مطابق دہشت گردوں کی شناخت زالا نور، کفایت اللہ اور مجید کے نام سے ہوئی ہے۔ ہلاک دہشت گرد مجید اور زالا نور شمالی وزیر ستان کے رہائشی تھے جبکہ ہلاک دہشت گرد کفایت اللہ لکی مروت کے رہائشی تھا۔ پولیس کہتی ہے کہ حملہ آور دو گاڑیوں میں کراچی پولیس آفس پہنچے تھے، دونوں گاڑیوں کو بم ڈسپوزل سکواڈ کے عملے نے چیک کیا، ایک گاڑی عمارت کے عقب، دوسری سامنے کھڑی ہوئی ملی۔صدر پولیس لائن کے احاطے میں کھڑی کار کے چاروں دروازے کھلے ہوئے ملے تھے۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے چھت پر پہنچ کر پوزیشن لے لی تھی۔جتنا اسلحہ وہ لائے تھے، اس کے ساتھ وہ عمارت کی چوتھی منزل تک کیسے پہنچ گئے۔ مقابلہ ہوا۔ پولیس ملازمین مارے گئے جبکہ بڑی تعداد میں زخمی ہوئے۔ ایک چینل نے ابتدائی خبر میں بتایا کہ دہشت گرد پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔ پولیس کی وردی میں ملبوس افراد کی بھی تو چیکنگ کرنا ضروری ہوتی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنا سارا اسلحہ لانے والے افراد دفتر کی عمارت میں کسی رکاوٹ کے بغیر کیوں کر داخل ہونے میں کامیاب رہے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا جواب حکومت کو دینا چاہیے۔ یہ نعرے لگانے یا خوشی منانے کا وقت نہیں بلکہ ندامت محسوس کرنے کا وقت ہے۔ پولیس سے پشاور میں بھی غفلت ہوئی اور کراچی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ غفلت کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں وہ ہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ عمومی رویہ ہے کہ واقعہ گزر جانے کے بعد سب ہی لا پرواہ ہو جاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس اپنے فر ائض انجام دینے میں سست روی کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے دہشت گرد اپنی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں۔ دہشت گردوں کی کامیابی ان کی ہمت افزائی کا سبب بنتی ہے، انہیں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے ان کا مقابلہ ہے وہ تو اکثر غافل ہی رہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ملازمین کی اکثریت نماز مغرب میں مصروف تھی۔ پولیس ہو یا کوئی اور قانون نافذ کرنے والا ادارہ ، اسے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ حالت جنگ میں ہے اسی کے بعد اسے اپنے معمولات مرتب کرنا چاہئیں۔ نماز کے لیے جماعت ایک سے زائد بھی تو ہو سکتی ہے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہو گیا ہے کہ پولیس افسرا اور ان کے ماتحت ملازمین کی غفلت سے نمٹنے کی باقاعدہ تربیتی کورس شروع کئے جائیں۔ یہ سمجھ لینا کہ انہیں سب کچھ آتا ہے ، ہر گز ایسا نہیں ہے۔ ہر بار وہ غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں اور دہشت گرد کامیاب ہو جاتے ہیں البتہ اپنی جان گنوادیتے ہیں۔ وزیرستان سے تعلق رکھنے ولاے لوگ کراچی پہنچ کر کارروائی کر لیں، اسے کس کی کامیابی قرار دیا جانا چاہیے۔ ایسا اکثر نہیں ہوتا ہے کہ افسران دفتر میں جب آتے ہیں یا جاتے ہیں تو پوری عمارت کا جائزہ لیتے ہوں۔ افسران تو صرف اپنے دفتر آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس سب ٹھیک ہے۔
کراچی پولیس کے ہیڈ آفس پر حملے سے چند گھنٹے قبل انسپکٹر جنرل پولیس سندھ غلام نبی میمن نے سینٹرل پولیس آفس کے واچ ٹاور پر خود جاکر مورچے اور عقبی ایمرجنسی گیٹ کی سکیورٹی چیک کئے تھے ۔ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سندھ پولیس کے ہیڈ کوارٹر کی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد غلام نبی میمن تنہا ہی سی پی او کی عمارت کے عقبی حصے کی طرف پہنچ گئے تھے ۔انہوں نے ریلوے لائن کی طرف کے ایمرجنسی داخلی دروازے کا جائزہ لیا وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں کو ہدایات جاری کیں جس کے بعد وہ سی پی او کی عمارت کے عقبی حصے کا معائنہ کرتے ہوئے عمارت کے واچ ٹاور تک پہنچ گئے تھے ۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ حساس اداروں کی جانب سے جمعہ کو پولیس دفاتر کے لیے سخت سکیورٹی خدشات ظاہر کیے گئے تھے تاہم حملہ آوروں نے سندھ پولیس ہیڈ کوارٹر کی بجائے دن گزرنے پر مغرب کے وقت کراچی پولیس ہیڈ آفس پر حملہ کر دیا۔ اس حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ پشاور حملہ کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی لیکن فوری ہی انہوں نے اپنے آپ کو ذمہ داری سے یہ کہہ کر مبرا کر لیا تھا کہ مسجد اور عبادت گاہوں پر حملہ ان کی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ پولیس ہیڈ آفس پر حملہ سے پولیس افسران حواس باختہ ہو گئے ہوں گے۔ کراچی میں الرٹ تھا یا نہیں، یہ حکام کو پتا لیکن کیو ں ضروری ہے کہ دہشت گرد حملہ کا مقام اور وقت بتا کر ہی اپنی کارروائی کریں گے۔ کیا پولیس اور سکیورٹی ڈیوٹی دینے والوں کی ذمہ داری نہیں کہ ہر گھڑی چوکنا رہیں اور آنکھیں کھول کر رکھیں ۔ دہشت گرد تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آتے ہیں۔ وہ اس یقین کے ساتھ آتے ہیں کہ ان کی جان جائے گی لیکن ان کا ہدف اپنے دشمن کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا ہوتا ہے،اکثر ہماری سکیورٹی کی غفلت کی وجہ سے ہمارا زیادہ جانی نقصان ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ پولیس عملہ اور عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ اقتصادی طور پر کمزور حالات کا شکار ملک کیوں کر اور کب تک دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات کا سامنا کر سکتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button