ColumnNadeem

سیاسی تقسیم کا صحافت پر غلبہ .. ندیم زعیم

ندیم زعیم

 

جب الیکشن کا طبل بجتایا میدان لگتاہے تو گلیوں محلوں میں چھوٹے چھوٹے سیاسی دفاتر بنائے جاتےہیں یہ دفاتر ایسے چوک چوراہوں میں بنائے جاتےہیں جہاں زیادہ تر لوگوں کا گزر ہو۔ دفاتر میں چائے پانی کا بندوبست کرکے سیاسی کیمپوں کو مزید متاثرکن بنایاجاتاہے اگرایک پارٹی 10دفاتر بناتی ہے تو دوسری جماعت اس پر سبقت لے جانے کے لیے 12 بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ان دفاتر کو چلانے والوں کو روزانہ کا خرچہ بھی دیتی ہیں۔بہرحال ان دفاتر کا اولین مقصد یہ ہوتاہے کہ عام ووٹرز کو اپنی سیاسی پارٹی کے بیانیےسے زیادہ سے زیادہ متعارف کرایا جائے بدقسمتی سےپاکستان میں 2014 میں عمران خان کےآزادی مارچ کے بعد سے پاکستانی میڈیا کی غیرجانبداری بھی ایسےہی اپنے اپنے بیانیوں کو لے کر تقسیم ہونا شروع ہوئی کہ جو آج تک جاری ہے ۔
عمران خان نے شروع میں ’’مک مکاؤ‘‘ کی سیاست کا بیانیہ اپنایا تو اِسے خاصی مقبولیت ملی لیکن جب پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں ایک طرف ہوگئیں تو عمران خان کو انقلابی سیاستدان کے طور پر جانا جانے لگا ۔ویسے تو پاکستانی سیاست میں یہ تقسیم صرف جماعتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اداروں اور محکموں میں حتیٰ کہ گھروں میں بھی ایک فرد روایتی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہے تودوسرا عمران خان کے ساتھ۔ ذاتی نوعیت کے کسی کے ایک بولے جانے والے جملے سے لوگ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتےہیں کہ اس کی حمایت عمران خان کے ساتھ ہے یا فضل الرحمان ،زرداری یا نواز کے ساتھ ہے۔ آتے ہیں اپنے نقطے کی طرف کہ اس سیاسی تقسیم یا سیاسی بیانیوں کے فرق نے میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کسی بھی خبر کو اپنے زاویہ نظر کے الفاظ کے ساتھ پیش کرنا صحافت میں کوئی جرم ہی نہیں رہا۔اگر ایک بڑامیڈیا ہائوس پی ڈی ایم کےبیانیے کو پروموٹ کرنے میں لگا ہےتو دوسرا اسی پائے کا چینل یا میڈیا ہائوس عمران خان کے ساتھ ہے اور اب یہ پہچان اتنی واضع ہے کہ صرف میڈیا ہائوس کا نام لینے سے کوئی بھی عام سا شہری فٹ سے بتا دیتا ہے کہ یہ چینل یا اخبار کس طرف ہے۔ماضی کی صحافت پر نظر ڈالی جائے یاآج ہمارے صحافتی ضابطہ اخلاق کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں ایسی جانبداری کی کوئی گنجائش نہیں۔پورے پورے میڈیا ہائوسز کی بات تو الگ ہے صحافیوں خصوصاً اینکرز کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے کہ فلاں کی صحافت کا جھکاؤ کس طرف ہے اور فلاں کی تحریر کس کے بیانیے کے تحفظ کی ضمانت بنی ہوئی ہے۔
یہاں یہ بھی حقیقت ہے اب غیر جانبدار صحافی یعنی بااصول صحافی کو ہومیو پیتھک صحافی کہا جاتا ہے یعنی اس کی بات میں وہ شدت نہیں جس کی قارئین اورناظرین کو عادت پڑ چکی ہے۔لہٰذا اب اصل صحافت کو کوئی دیکھنا بھی نہیں چاہتا اور اگر ناظرین نہیں دیکھتے تو ریٹنگ نہیں آتی اور اگرریٹنگ یا ٹی آر پی نہ آئے تو اشتہارات اتنے نہیں ملتے یعنی یہاں ریاست کے اس چوتھے کہلائے جانے والے ستونوں پر بھی کاروبار غلبہ پاگیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحافت کے کتابی اصول اورضابطے اور ہیں اور ریٹنگ کے ضابطے اور قوانین اور ہیں۔
میرے تجربے میں یہ چیز بھی بڑی واضع آئی ہےکہ اب سیاستدانوں نے بھی اپنے بیانیوں کی حفاظت اور پروموشن کے لیے اپنے میڈیا ہائوسزچن رکھے ہیں ہر اینکر کسی بھی سیاستدان کو بلا کر اپنی مرضی کے سوالات نہیں پوچھ سکتا سیاستدان کا وقت تب ہی ملے گا جب آپ اس کی مرضی اور حمایت کے سوالات پوچھیں اور اگر کوئی سوال اپنی مرضی یا حقائق پر مبنی پوچھ لیا جس کاسیاستدان یا آپ کے مہمان کے پاس جواب نہیں تو بس اگلی بار اس چینل یا پروگرام کا بائیکا ٹ ہو جاتاہے اوریہ پروگرام کا انعقاد کرنے والے پروڈیوسرز ہرگز نہیں چاہتے کہ ہمارے پروگرام میں ایک ہی سائیڈ کی آوازسنی جائےلہٰذا صحافتی اصولوں کی نفی تو یہاں بھی ہوجاتی ہے میں نے ایک وزیر سے سوال پوچھا کہ آپ کے پاس وقت کم ہوتاہے لیکن آپ بہت زیادہ ایک مخصوص چینل پر نظرآتےہیں تو انھوں نےواشگاف الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ پارٹی پالیسی ہے اب بات اور بڑھ گئی ہے پہلےکسی میڈیا ہائوس پرایک خاص طرح کی مہم چلانے کا الزام لگتاتھا بلکہ یہاں تک کہاجاتا تھا کہ اس چینل یا میڈیا ہائوس نے اشتہارات کے علاوہ بھی پیسے لے لیےہیں مگر اب تو بڑے واضح چینل ہی خریدے جارہے ہیں اب کوئی متحرک سیاسی شخصیت یا ایک نظریہ رکھنے والی بڑی کاروباری شخصیت چینل یا میڈیا ہائوس خریدتی ہے تو اس سے غیر جانبدار ی کے اصولوں کی توقع کرنا ایک مذاق ہوگا۔
ذرا سوچئے کہ ان کے ماتحت صحافی کیسے اپنے صحافت کے ضابطوں کی پیروی کرسکتےہیںایسے میڈیا اپنا وقار کھوبیٹھےگا کیونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے ہر انسان کو خبر دینے اور جاننے کی رسائی موجود ہے لہٰذا اصل حقائق کو چھپانا ہرگز ٹھیک نہیں ہوگا۔ ہم الیکشن کے سال میں اگر سیاسی پارٹیوں کے دفاتر کی طرح کام کرنے لگے تو یہ پروفیشنل ’’ڈس اونیسٹی‘‘ ہوگی اور رائے عامہ بنانے والے ادارے گمراہی پھیلانے والے ادارے کہلائیں گے ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہوگا میڈیا سے نفرت کرنے لگیں گے اور عوام کا اعتماد اٹھ جائےگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button