
سیرت نبویﷺ اور ہمارا طرز عمل .. امتیاز احمد شاد
امتیاز احمد شاد
چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں جب گھٹا ٹوپ اندھیری رات تھی،گمراہیوں اور ظلم و ستم کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں، تب سرورِ کونین، حضرت محمد ﷺ کی نبوت کا آفتاب طلوع ہوا۔ہرطرف دولت پر غرور،جاگیرو جائیداد اور پُرگھمنڈ نسلی اور خاندانی اونچ نیچ،اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا جاننا، غریب پسے ہو ئے لوگوں سے چھوت چھات کا معاملہ کرنا،غریب،مسکین کودبانا،کمزوروں کا استحصال کرنا، خود غرضی،بے رحمی،سود،زنا،شراب اورجوا وغیرہ ایسی بیماریاں تھیں جن کی وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔عرب کی معاشرت ان عام بیماریوں کے ساتھ بیمار معاشرت تھی۔پھر یہ بھی خطرناک بیماری لاحق تھی کہ یہاںباقاعدہ کوئی حکومت نہیں تھی،ہر قبیلہ اپنی جگہ آزادتھا، دوسرے قبیلے کو ناپاک،غیر اور مقابل جاننا،انسانی خون سستا اورہلکا سمجھنا ان کا قومی مزاج بن گیا تھا۔اس دور کے علاج کے لیے ایک بہت بڑے سماجی انقلاب کی ضرورت تھی۔
حضرت محمدﷺ نے جیسے ہی اس معاشرے میں قدم جمایا، ہر مرحلے پر آپﷺ میں خالق حقیقی پروردگار کی عبادت کا شوق بڑھا،قوم کی ابتر حالت بھی آپﷺ کے دل کا درد اور جگر کا سوز بن گئی۔آج بدقسمتی سے ہمارے حالات بھی مختلف نہیں۔اسی لیے آپﷺکی حیاتِ طیبہ ہی ہمارے دلوں کو سکون اور معاشرے کو مثبت راہ دکھا سکتی ہے۔ آپﷺ نے اپنے اخلاق،کردار اور اعمال کے ساتھ انسانوں کے دلوں کی سطح ہموار فرمائی، آپﷺ نے جن کی تربیت و اصلاح کی ان کی زندگیوں کا مقصد تھا کہ ہم اپنے وطن سے بے امنی دور کریں گے،غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے،مسافروں کی حفاظت کریں گے،طاقت ورکو کمزور پر، بڑوں کو چھوٹوں پر ظلم کرنے اور ناانصافی سے روکیں گے۔یہی وہ اصلاح کا عظیم چارٹر (عہد) تھا جس پر عمل کے لیے دلوں کی دنیا بدلنے، دلوں کی سطح کی ناہمواری کے خاتمے کی ضرورت تھی، اسی لیے ظلم کے معاشرے میں انسانیت کو محسن، صادق وامین اور رحمۃ للعالمین ﷺکی ضرورت تھی۔آپﷺ کی بعثت سے اصلاح اور انقلاب کا راستہ کھل گیا۔
اسی لیے قرآن کریم نے آپ ﷺکو روشن چراغ کہہ کر پکارا۔سیرت خاتم الانبیاء کے مطالعے سے بنیادی رہنمائی کے وہ چندپہلو جو بندہ مومن کی زندگی کو کامیاب،اللہ کے ہاں قبولیت سے آخرت کی نجات اوررسول اللہﷺ کی شفاعت کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ مومن کی صفات کیا ہیں اور کیا ہونی چاہئیں؟بندہ مومن کے لیے اخلاق حسنہ کیا ہیں؟ اہل ایمان کو باہمی تعلقات کی کشیدگی سے بچائو اور مثالی تعلقات کی کیا رہنمائی دی ہے۔
رسول اللہﷺ کی تعلیمات احادیث مبارکہ سے روشنی ملتی ہے کہ مومن کی صفات کچھ یوں ہیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ مومن کی عادت نہیں کہ لعن طعن کرے،فحش گوئی یا بیہودگی اختیار کرے۔ آپﷺ کافرمان ہے کہ جو کوئی کسی شخص کو کسی ایسے گناہ پر طعنے دے جس سے اس نے توبہ کر لی ہو،ایسا شخص مرنے سے پہلے وہ کام ضرور کرے گا،یعنی اس گناہ میں آلودہ ہو گا۔
آپﷺ سے سوال کیا گیا کیا مومن بزدل ہوتا ہے فرمایا ہاں!پھر سوال ہوا کیا مومن بخیل ہوتا ہے فرمایاہاں!سوال ہواکیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے تو نبی مہربانﷺ نے فرمایامومن جھوٹانہیں ہوسکتا۔ خاتم النبیین ﷺنے فرمایا کہ مجھے اس طرح نہ بڑھانا جس طرح نصاریٰ نے حضرت مسیح ؑکو بڑھایا۔ میں اللہ کابندہ ہوں بس میرے حق میں تم یہی کہا کرو کہ آپﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا،ماں باپ کو گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے،صحابہ ؓ نے سوال کیا،حضور ﷺ کوئی اپنے ماں باپ کو کوئی گالی دیتا ہے؟فرمایا ہاں جو شخص دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے گا، وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دے گا تو یہ گالی اس نے اپنے ماں باپ کو دی۔نبی آخر الزماںﷺ نے مومن کی تربیت کے لیے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے مائوں کی نافرمانی کرنا،لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینا، اپنا مال روکنا اورلوگوں سے مانگنا، ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہنا اور کثرت سے سوال کرنا اور مال ضائع کرنا بھی خدا کوناپسند ہے۔(مسلم، ترمذی)خاتم المرسلینﷺ کی تعلیم وتربیت نے صحابہ کرامؓ کو جس مسلسل اور کٹھن نظام تربیت سے گزارا،انہیں دیکھیں اخلاق حسنہ کے نقش تلاش کریں تو رہنمائی ملتی ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ طعن کریں، غیبت کریں،تجسّس اور حسد میں پڑے رہیں۔ اللہ تعالیٰ فحش کام کرنے والے اور فحش گو سے محبت نہیں رکھتا جو بازاروں میں چلّاتا پھرتا ہے، مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ لعن طعن کرے، تم ایک دوسرے سے یہ نہ کہو کہ تجھ پر خدا کی لعنت ہو یا اللہ کا غضب ہو یا دوزخ میں جائے،آپﷺ نے فرمایا کہ میں لوگوں کو دھتکارنے،لعن طعن کرنے نہیں، بلکہ رحم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔قرآن اعلان کرر ہا ہے کہ آپﷺرحمۃ للعالمین ہیں۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور بلا جواز جنگ کرنا کفر ہے۔سرور دو عالمﷺ کے یہ ارشادات ہر جگہ عامۃ الناس تک پہنچا دینا ہر عالم،ہر صاحب ایمان کاکام ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا، مومن میں تمام خصائل پیدا ہو سکتے ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔ فرمایا کہ چھ چیزوں کی تم ضمانت دو میں تمہارے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
جب کوئی بات کروسچ بولو۔جب کوئی وعدہ کروپورا کرو۔اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔ امانتوں کی حفاظت کرو اوراپنی آنکھیں نیچی رکھو۔ہاتھوں کو (ظلم و ناانصافی سے)روکو۔ (مشکوٰۃ)رسول اللہ ﷺ نے انسانی معاشرے خصوصاً اہل ایمان، اپنے امتیوں کی تعلیم وتربیت میں رہنمائی فرما دی، ایک شخص نے عرض کیا حضورﷺ، میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیاپھر کون؟فرمایا تمہارے والد۔ (متفق علیہ)خاتم النبیینﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بڑے بڑے تین گناہ نہ بتاوں، صحابہ ؓ نے عرض کیا، ہاں رسول اللہﷺ بتایئے، فرمایا اللہ کا شریک بنانا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور مکروفریب کی بات کہنا۔حضورﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ کس کے لیے،فرمایا اس شخص کے لیے جو اپنے ماں باپ میں سے دونوں کو یا ایک کو بڑھا پے میں پائے اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو۔ (صحیح مسلم)
سیرت نبوی ﷺ ہی واحد راستہ ہے جو ہمیں منزل تک لے جا سکتا ہے، اس کے علاوہ تمام راستے سوائے الجھن اور پریشانیوں کے کچھ نہیں۔خدادا مملکت پاکستان کے باشندے آج تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے ان کے دل تذبذب،الجھنوں اور وسوسوں کا شکار ہیں۔اغیار کے سامنے کشکول پھیلائے ہمہ وقت کھڑے ہیں۔ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں ہر حد پار ہو رہی ہے۔بطور مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم سیرت نبوی ﷺ کو عام کریں، مشکلات خود بخود دور ہو جائیں گی۔غور کریں کیا ہم ان تمام خرافات کا شکار نہیں ہو چکے جن میں عرب کا معاشرہ آپ ﷺ کی آمد سے پہلے مبتلا تھا؟