Editorial

جنرل عاصم منیر کا انسداد دہشت گردی کیلئے عزم

 

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا نظریہ نہیں ہوتا، گمراہ کن تصورکو لالچ اور دباو¿ سے مسلط کیا جاتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے لیے اعتماد اور مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ پاکستانیوں نے ہمیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسترد کیا اور شکست دی۔ ہم مل کر خوشحال مستقبل کے لیے اس خطرے پر غالب آئیں گے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں کی عیادت کی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ سکیورٹی فورسز کی توجہ انسداد دہشت گردی اورانٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز پر ہے۔ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز پورے ملک میں کامیابی سے کیے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف سیاسی اور عسکری قیادت کے عزم کو پوری قوم کی تائید ، طاقت اور حمایت حاصل ہے، کیونکہ اِس گھناﺅنے فعل کو ہمیشہ مسترد کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف دنیا کی طویل ترین جنگ میں کامیابی قوم کی تائید اور بھرپور حمایت کے بغیر قطعی ممکن نہیں تھی لہٰذا ہم نے اِس جنگ میں اپنے پیاروں کی قربانیاں پیش کرکے کامیابی حاصل کی اور عہد کیا کہ شہدا کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی دہشت گردی کی نئی لہر اُٹھتی ہے، پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ اِس جنگ میں شامل ہوجاتی ہے اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد بھی قوم پہلے کی طرح پُرعزم ہے کہ ہم دہشت گردوں کو پنپنے نہیں دیں گے اور اُن کی بزدلانہ کارروائیاں کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے زیرو ٹالرنس کے ساتھ عزم کو مضبوط کرتی ہیں کہ اِنسانیت کے دشمنوں کا جلد قلع قمع ناگزیر ہے ،دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد مذموم کارروائیوں کے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیںلیکن اب انہیں سکیورٹی فورسز کی جوابی منظم کارروائیوں کی وجہ سے پے درپے ناکامیوں کا سامنا ہے مگر وہ ہماری محنت سے حاصل کردہ کامیابیوں کو پلٹنا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ ایک بار پھر ریاستی رٹ چیلنج کرنے کا ماحول بنانے کی کوشش کررہے ہیں مگر انہیں مقاصد کا حصول دور تک ممکن نظر نہیں آرہا۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا نظریہ نہیں ہوتا اور دہشت گردی کے ہر واقعے اور اِس کی شدت نے ثابت کیا کہ نہتے اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے صرف مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مختلف لبادے استعمال کرتے ہیں۔ مسجد، مندر، چرچ، سکولز، ہسپتال ہر جگہ نہتے شہریوں کا قتل عام کرنے والے کس مذہب کے پیروکار ہیں مسلمان تو کبھی مسجد کا تقدس پامال کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اسی طرح غیر مذاہب کی عبادت گاہیں بھی ہر مسلمان کے لیے قابل احترام ہیں لہٰذا مذہب کے لبادے میں دہشت گردی صرف اور صرف انسانیت کا قتل ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیاگیا ہے، تمام مذاہب اور مسالک کے لوگ پوری آزادی کے ساتھ بھرپور مذہبی آزادی رکھتے ہیں لیکن وطن عزیز کو دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام کا شکارکرنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردوں کو روانہ کیا جارہا ہے تاکہ وہ مذہب اور نظریہ کے نام پر پاکستان اور اسلام دشمنوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل یقینی بنائیں مگر انہیں ہربارناکامی کا سامنا کرناپڑا ہے۔سیاسی اور عسکری قیادت پرعزم ہے کہ کسی مسلح جتھے کو پاکستان میں کسی قسم کی گنجائش نہیں دی جاسکتی اور ریاست کی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا۔دہشت گردوں کے پیچھے مشرق ہو یا مغرب اِن کو منطقی انجام تک پہنچانے اور اِس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے پ±رعزم ہیں۔پاک فوج نے دہشت گردی کی طویل ترین جنگ میں کامیابی بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل کی ہے لہٰذا قطعی ممکن نہیں کہ شہدا کی قربانیاں رائیگاںجانے دی جائیں اور دہشت گردوں کے وجود اور ا±ن کے مطالبات کو تسلیم کرلیا جائے حالانکہ اِن کے پیچھے مذموم مقاصد ہیں لہٰذا اگر کوئی ریاست کے مفادات کو کسی غیر ملکی طاقت کے ایما پر چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اِسے دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیاں اور ا±ن کے نتیجے میں دہشت گردوں کو پہنچنے والے نقصان کو بھی قبل ازیں مدنظر رکھنا چاہیے۔ پاک فوج کسی صورت دہشت گردوں کو ا±ن کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی اور سربراہ پاک فوج نے بھی عزم مصمم کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے ۔ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اب بھی افغان سرزمین کو موزوں سمجھ رہے ہیں۔ افغان حکام کے لیے متذکرہ صورتحال لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوںمیں ملوث دہشت گرد افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں، دونوں ملکوںکے درمیان تعلقات کو ایسے واقعات نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا افغان حکام کو دہشت گردعناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور دہشت گردوں کے لیے افغانستان کی سرزمین تنگ کردینی چاہیے، ہمیں یقین ہے کہ اب شہ سرخیاں چیخ چیخ کر دہشت گردوں کے قلع قمع کی خبر دیں گی اور ہم دہشت گردوںکو ان کی کمین گاہوں تک پہنچ کر مارئیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے لیے سیاسی قیادت کو ایک پیج پر متفق ہونا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان پر اُس کی اصل روح کے مطابق من و عن عمل کیا جائے اور ابتک اِس پر عمل درآمدمیںجتنی بھی رکاوٹیں سامنے آئی ہیں اِن کو سیاست کی نذر ہونے سے بچایاجائے۔ ہمیں قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اسی ہزار سے زائد قربانیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دے چکے ہیں ، اسی طرح ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کی زد میں آکر ناقابل تلافی نقصان اٹھاچکے ہیں اور دہشت گردی کے ہرواقعے کے بعد ہمیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوتارہا ہے جو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا تقاضا کرتی رہی ہیں۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے مل بیٹھنا چاہیے، کوئی بھی مصلحت ملک و قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button