ColumnRoshan Lal

عمران خان۔۔۔۔صادق و امین … روشن لعل

 

روشن لعل

ناقدین ، عمران خان کو ان کی ذات اور کردار کے حوالے سے چاہے جو بھی سمجھیں مگر ان کے عقیدت مندوں کے لیے اب بھی یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ وہ اس ملک کے واحد سند یافتہ” صادق و امین“ ہیں۔ عمران خان کو صادق و امین کی سند کسی ایرے غیرے کی نہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جاری کردہ ہے۔ سپریم کورٹ نے حنیف عباسی کی عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں دائر درخواست کو رد کرتے ہوئے انہیں صادق و امین قرار دیا تھا۔ فارن فنڈنگ کے ایک کیس میں تو سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق و امین قرار دے دیا مگر اسی نام کے دوسرے کیس میں ان پر نااہل ہونے اور صادق و امین کی سند واپس لیے جانے کی تلواراب بھی لٹک رہی ہے۔ حنیف عباسی نے عمران خان کو نااہل قرار دینے کے لیے جو درخواست دائر کی تھی اس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار نے دیگر وجوہات بیان کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ درخواست گزار کیونکہ فارن فنڈنگ کیس میں براہ راست متاثر نہیں ہوا اس لیے اس کی درخواست رد کی جاتی ہے ۔ چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار نے دسمبر 2017 میں جب عمران خان کو صادق و امین قرار دیا اس وقت فارن فنڈنگ نام کا کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی 2014 سے زیر سماعت تھا۔ جو کیس الیکشن کمیشن میں 2014 سے زیر سماعت تھا اس پر قریباً 8سال بعد اگست 2022 میں یہ فیصلہ آیا کہ عمران خان کی تحریک انصاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرتی رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد فارن فنڈنگ کا کیس ایک مرتبہ پھر عدلیہ کے پاس آگیا ہے ۔ اس کیس کے حوالے سے عام خیال یہی ہے کہ اگر عدلیہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے سامنے آنے والی الیکشن کمیشن کی فائنڈنگز کو تسلیم کر لیتی ہے تو پھر عمران خان کا نااہل ہونا طے ہے ۔ عمران خان پر نااہلی کی تلوار صرف فارن فنڈنگ ہی نہیں بلکہ توشہ خانہ کیس اور ٹیریان وائٹ کے معاملے میں بھی لٹک رہی ہے۔ اگر ان تینوں معاملات میں سے کسی ایک میں بھی عدلیہ عمران خان کے خلاف فیصلہ دے دیتی ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت ان کا صادق و امین کے زمرے سے خارج ہو کر اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل ہو جانا یقینی سمجھا جارہا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی اسمبلی یا پارلیمان کا رکن بننے کی اہلیت کے لیے صادق و امین ہونے کی شرط کو ضیا الحق نے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت آئین کا حصہ بنایا تھا۔ ضیاالحق نے 62(1)(f) کو آئین میں شامل تو کر دیا مگر کہیں بھی صادق و امین کی تعریف بیان نہ کی۔ صادق و امین کی تعریف آئین پاکستان میں کہیں موجود نہ ہونے کا حوالہ سپریم کورٹ میں 16 اکتوبر 2014 کو اس وقت دیا گیا تھا جب اس عدالت میں اسحٰق خاکوانی کی میاں نوازشریف کو نااہل قرار دینے کی درخواست زیر سماعت تھی۔ اسحٰق خاکوانی نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی تھی کہ میاں نوازشریف نے کیونکہ اسمبلی میں یہ جھوٹ بولا کہ انہوں نے آرمی چیف کو پی ٹی آئی اور نون لیگ کی حکومت کے درمیان مصالحت کروانے کا نہیں کہا،لہٰذا انہیں صادق و امین کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے نااہل قرار دیا جائے۔ جس عدالت نے دسمبر 2014 میں میاں نوازشریف کی نااہلی کے لیے دائر اسحٰق خاکوانی کی درخواست رد کرنے سے قبل یہ کہا تھا کہ آئین میں کہیں بھی صادق امین کی تعریف موجود نہیں ہے ،بعد ازاں اسی عدالت کے ججوں نے جولائی2017 میں یہ قرار دے کر کہ وہ صادق امین نہیں رہے۔ پھر اسی عدالت نے دسمبر 2017میں جہانگیر ترین کو صادق و امین کی صفات سے عاری ٹھہرا کر نااہل قرار دیا تھا جبکہ عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس میں صادق و امین کا سرٹیفکیٹ عطا کردیا تھا ۔
جہاں تک کسی کے صادق و امین ہونے کا تعلق ہے تو جس طرح ان صفات کی تعریف کے متعلق آئین میں کچھ واضح نہیں اسی طرح اس بات پر بھی ابہام موجود ہے کہ عدلیہ کس معیار کے تحت قریباً ایک جیسے کردار کے حامل مختلف لوگوں میں سے کسی کو تو صادق و امین کا سرٹیفکیٹ عطا کر کے اسمبلی کی رکنیت کا اہل بنادیتی ہے اور کسی کو صادق و امین کی صفات سے عاری قرار دے کر اس پر اسمبلیوں کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ ویسے عام معنوں میں صادق و امین سے مراد پیغمبرانہ کردار کا حامل وہ شخص ہے جس نے نہ کبھی جھوٹ بولا ہو اور نہ ہی کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہو۔
آج جب عمران خان کو حاصل صادق و امین کی سند خاص طور پر ٹیریان کے معاملے میں خطرات کی زد میں آچکی ہے تو کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میاں نوازشریف کو صادق او امین کی صفات سے عاری قرار دے کر نااہل کرنا ایک غلطی تھی، جو غلطی میاں نوازشریف کے معاملے میں کی گئی، ضروری نہیں کہ اسے عمران خان کے لیے دہرایا جائے۔جس آرٹیکل 62(1)(f) اور اس کے تحت کسیکو صادق وامین نہ ہونے کی بنا پر نااہل کیا جاسکتا ہے اس کے آئین میں شامل کیے جانے کو اس لیے بلا جھجھک منافقت کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے خالق کا اپنا کردار صادق و امین ہونے کے معیار پر کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا تھا۔بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ جس منافقت کے تحت یہ آرٹیکل آئین میں شامل کیا گیا تھا اسی منافقت کے تحت محض اسے جواز بنا کر پسندناپسند کی بنا پر لوگوں کی اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے کیے جاتے رہے۔
ٹیریان وائٹ کی ماں سیتا وائٹ نے1997 میں امریکی عدالت میں عمران خان پر ٹیریان کا باپ ہونے کا الزام لگایا تھا۔اس الزام کا جواب امریکی عدالت میں ڈی این ٹیسٹ رپورٹ کی شکل میں دینے کی بجائے عمران خان نے پاکستانی میڈیا کو مطمئن کرنے کے لیے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ ٹیریان کے باپ نہیں ہیں۔عمران خان کی طرف سے صفائی کا موقع استعمال نہ کرنے پر امریکی عدالت نے انہیں ٹیریان کا باپ تسلیم کرنے کا فیصلہ دیا۔ جس عمران خان کو یہاں 2017 میں باقائدہ صادق وامین تسلیم کیا گیا اس کے متعلق امریکی عدالت کئی سال پہلے یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ وہ شادی کے بغیر قائم کیے گئے جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیٹی کے باپ ہیں۔
ٹیریان کا باپ ہونے کے باوجود اسے اپنے کاغذات نامزدگی میں بیٹی ظاہر نہ کیے جانے کے الزام کے تحت عمران خان خلاف اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک کیس زیر سماعت ہے۔ قبل ازیں اسی قسم کا ایک کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلا تھا جس میں دائر کردہ درخواست کو رد کر دیا گیا تھا۔ جو درخواست پہلے رد ہوئی اور جس درخواست پر اب کارروائی جاری ہے ، ان دونوں کے متعلق یہ کہا جاسکتا تھا کہ قبل ازیں کسی کوشک بھی نہیں ہوتا تھا کہ عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ آسکتا ہے مگر اب گمان ہونے لگا ہے کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button