ColumnNasir Sherazi

ملک کی فکر نہیں! .. ناصر شیرازی

 

ناصر شیرازی

صوبہ خیبر پختونخوا کے بعد صوبہ سندھ میں دہشت گردی کے افسوس ناک واقعات میں قیمتی معصوم زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے، یکے بعد دیگرے دو واقعات سے دہشت گردوں نے ایک پیغام دیا ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ اب ان کا اگلا نشانہ پنجاب اور صوبہ بلوچستان ہوں گے۔ دوئم محکمہ پولیس، اس کے دفاتر، ان کی رہائش گاہیں، سوشل یا ان کے پریڈ گرائونڈ بھی محفوظ نہ ہوں گے۔ ایک پیغام اور بھی ہے جو وہ گھر گھر پہنچا کر ملک کے طول و عرض میں افراتفری پھیلا چاتے ہیں، اس پر بھی توجہ ضروری ہے، وہ اس تاثر کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کہ پولیس کا محکمہ اور اس سے منسلک افراد اپنی حفاظت نہیں کرپارہے تو یہ شہریوں کی حفاظت کیسے کریں گے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس لائنز میں ہونے والے واقعے کے فوراً بعد بعض ذمہ داران کی طرف سے بے سروپا بیانات جاری کیے گئے، ابتدا میں بلا تحقیق کہا گیا کہ حملہ آور کئی روز سے سٹاف کوارٹرز میں کسی کا رہائشی کا مہمان تھا، پھر کہاگیا کہ وہ قریباً دس کلو بارود اپنی جیکٹ میں چھپائے ہوئے تھا بعد ازاں جب سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی تو پول کھلا کہ حملہ آور پولیس یونیفارم میں تھا، وہ اپنے منصوبے کے مطابق نہایت آسانی سے پولیس لائنز ایریا میں داخل ہوا اس نے اپنی موٹر سائیکل ایک جگہ کھڑی کی اسی اثنا میں ایک اور پولیس اہلکار اس کے پاس آیا اور سلام کے بعد درخواست کی کہ موٹر سائیکل وہاں سے ہٹالے۔ دیکھاجاسکتا ہے کہ پولیس لائنز میں داخل ہوتے ہوئے اس شخص کو چیک نہ کیاگیا اس کے علاوہ بھی گیٹ تو کھلا تھا، وہاں مناسب چیکنگ نہیں کی جارہی تھی، پولیس اہلکاروں نے پولیس یونیفارم میں اُسے پیٹی بھائی سمجھا اور اس کی طرف توجہ نہ دی۔ یہ پہلی غلطی تھی جو پہلے قدم پر ہوئی اور متعدد واقعات میں نظر آئی۔
دہشت گرد اگر پہلی چیک پوسٹ سے بہ آسانی گذر جائے تو اس کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے جبکہ دوسری چیک پوسٹ یا مرحلے میں چیکنگ پر مامور سٹاف نسبتاً کم توجہ سے چیکنگ کرتا ہے اس کے خیال میں پہلے مرحلے میں تمام فرض ادا ہوجاتا ہے، یہاں سے گذرنے کے بعد دہشت گرد کے لیے اپنے ہدف تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا۔
کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں جس طرح حملہ آور آئے اور دفاتر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چیکنگ کا نظام کس قدر ناقص تھا۔ دہشت گرد آئے اور بجلی کی تیزی سے اپنے ہدف تک پہنچ گئے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے دروازے پر جو دربان کھڑے تھے کیا وہ صرف آنے جانے والے افسروں کو ایڑھیاں بجاکر سیلوٹ کرنے کے لیے استادہ تھے یا ان کے ذمہ سکیورٹی بھی تھی، اگر وہ سکیورٹی پر معمور تھے تو انہوں نے دہشت گردوں پر فائر کیوں نہ کھولا، اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا اور پہلی وارننگ پر آنے والے نہ رکتے تو انہیں وہیں گولیوں سے بھون دینا چاہیے تھا۔
اہم دفاتر، تنصیبات اور حساس مقامات کی سکیورٹی کے لیے صرف گیٹ پر دو افراد کے ہاتھوں میں رائفلیں پکڑا کر انہیں محفوظ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ کسی اونچی اور نسبتاً محفوظ جگہ پر ایک طرف نہیں بلکہ دوطرف سنائپر کھڑے کرنا ضروری ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ سکیورٹی پر معمور کوئی بھی شخص کسی بھی مقام پر کسی بھی لمحے اگر اپنے سیل فون پر بات کرتا، ٹک ٹاک بناتا یا دیکھتانظر آئے تو اُسے معطل نہیں بلکہ نوکری سے برخاست کردیا جائے۔
متعدد وارداتوں کی تحقیق میں ثابت ہوا کہ پولیس اہلکار غفلت کے مرتکب ہوئے، انہیں معطل کیاگیا مگر وہ کچھ عرصہ بعد اپنے ذرائع اور وسائل استعمال کرنے کے بعد بحال ہوگئے مگر انہوں نے اپنا طرز عمل نہ بدلا۔ مشاہدے میں یہ بھی آتا ہے کہ پاکستان میں جب معمول کی سرگرمیاں ہوتی ہیں تو دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات ہوجاتی ہے۔ جاری ایام میں پی ایس ایل نامی کرکٹ میلہ شروع ہوا اسی طرح موسم بہار کی آمد کے موقعے پر ملک بھر میں ثقافتی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، ایسے موقعے پر دہشت گردی کے دو واقعات ہوئے کسی بھی انہیں وقت سے پہلے نہ روکا جاسکا۔ اس سے دہشت گرد دنیا بھر کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک محفوظ ملک نہیں۔
پاکستان آرمی، وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کئی برس سے جان توڑ کوششوں کے بعد پاکستان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے گرے لسٹ میں طویل عرصہ رہنے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پاکستان کی یہ کامیابی اس کے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھائی، لہٰذا انہوں نے مختلف طریقوں سے پاکستان کو انتشار سے دوچار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاںاس کے لیے نسبتاً آسان ہیں کیونکہ دہشت گردوں کی زبان، ان کا لباس ہمارے یہاں بسنے والوں سے ملتا جلتا ہے جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام موجود ہے، پہلے صرف فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اب سیاسی منافرت اپنے عروج پر ہے، گذشتہ چار برس میں معاشرتی نفاق نے سیاسی نفاق کے ساتھ مل کر معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ کسی طورپر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ نئی نسل بطور فیشن ہر عیاری، مکاری و بدکاری کو قبول کررہی ہے اور اسے باور کرایا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ کرنا آپ کا ہے اُسے سمجھایا جارہا ہے کہ معاشرتی و مذہبی پابندیوں کی کوئی حیثیت نہیں، فرد واحد اپنی جگہ میں ہر طرح آزاد ہے وہ جو چاہے سوچے اورجو چاہے کرے، اس سوچ کے نتیجے میں معاشرتی بے راہ روی کے ساتھ ساتھ معاشرتی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف عدالتیں معیار انصاف پرپوری اُترتی نظرنہیں آتیں، ہمارے آس پاس ہر روز نئی مثالیں قائم ہوتی نظر آتی ہیں کہ اگر آپ میں طاقت ہے تو آپ ہر جرم کرکے ہر سز اسے بچ سکتے ہیں ۔ جاری برس کو آڈیو لیکس کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ہر آنے والی آڈیو لیک حکومت، نظام ِ حکومت، قانون اور معاشرے کے منہ پر زور دار طمانچے سے کم نہیں لیکن اب اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھ کر زندگی کا حصہ بنالیاگیا ہے، زیادہ آڈیوز اخلاق باختہ تھیں اب ان میں ایک شائستہ آڈیو لیک کا اضافہ ہوا ہے جو ایک خاتون سابق وزیر صحت اور ایک پولیس افسر کے درمیان ہے، گفتگو کے متعدد نکات فحش ہوتے تو تعجب نہ ہوتا لیکن یہ گفتگو دودھ سے دھلے اور زم زم سے نہائے افراد کے درمیان ہے جسے سنگین کہا جاسکتا ہے، خاتون وزیر صحت پولیس افسر سے پوچھ رہی تھیں کہ خان صاحب آج رات کے بارے میں زیادہ متفکر تھے یہ رات آرام سے گذر جائے گی۔ دونوں شخصیات کی گفتگو یقیناً گرفتاریوں کے حوالے سے تھی لیکن عقدہ کھلا کہ نوجوانوں کوجیل بھرو کی ترغیب دینے والے خود اپنی گرفتاری پر کتنے فکر مند ہیں۔ ملک کی کسی کو فکر نہیں۔ خدا اِسے محفوظ رکھے۔ خان صاحب کہتے ہیں ان سے بڑے بڑے فیصلے غلط ہوجاتے ہیں مگر وہ چاہتے ہیں سب اہم فیصلے کرنے کا اب بھی اختیار ان کے پاس ہونا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button