Editorial

اشرافیہ کی بجائے غریبوں کو سبسڈی دیں

 

عالمی مالیاتی فنڈز(آئی ایم ایف) نے پاکستان میں امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرنے اور سبسڈیز ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھا کمانے والوں کو معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں امیر لوگوں کو سبسڈیز سے مستفید نہیں ہونا چاہیے۔ سبسڈی صرف ان لوگوں کو منتقل کی جائے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہے اور آئی ایم ایف بالکل واضح ہے کہ صرف غریبوں کو سبسڈی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ غریب، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں آئی ایم ایف کاانتہائی سخت الفاظ میں ذکر کیا جاتا ہے، کیونکہ جب بھی آئی ایم ایف کا نام آتا ہے فوراً دھڑکا ہوتا ہے کہ یا تو حکومت اِس سے قرض لینے کے لیے پر تول رہی ہے یا پھر اِس کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے عوام پر مہنگائی کا قہر ڈھانے والی ہے، بلاشبہ یہ مالیاتی ادارہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ادارہ ہے اور پاکستان سمیت جو بھی غریب ملک معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اِس سے رجوع کرتا ہے تو اِس ادارہ کے معاشی ماہرین اُس ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات، وسائل اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی شرائط سامنے رکھتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک کی معیشت بہتر ہونے یعنی آمدن بڑھنے کے ذرائع میں اضافہ ہوتا ہے،جو ممالک اِس بین الاقوامی ادارے کے معاشی ماہرین کی تجاویز پر نیک نیتی سے عمل کرتے ہیں وہ تو کچھ سال بعد اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں مگر جن ممالک میں اشرافیہ قانون ساز، فیصلہ ساز، طاقت ور اور بالا ہوتی ہے وہاںمعیشت کی بحالی کے لیے پیش کی گئی تمام شرائط کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیاجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ معاشی بحران عارضی طور پر تو ٹل جاتا ہے لیکن وہ خرابیاں اپنی جگہ موجود رہتی ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے، کیسے موذی مرض کینسر کا علاج کرنے کی بجائے عارضی طور پر درد رفع کرنے والی دوا کھالی جائے، چونکہ وہ لوگ نرغے میں ہی نہیںآتے جن سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، جن کو اخراجات اور پروٹوکول کم کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، کفایت شعاری کی تلقین کی جاتی ہے، لہٰذا قلیل مدت کے بعد پھر وہی ممالک اوروہی آئی ایم ایف کا در۔ دیکھا جائے تو ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے کہ ہمارے اشرافیہ بھی کئی دہائیوں سے ایسا ہی کرتے آئے ہیں، ان کا رہن سہن، قول و فعل، مسائل، ترجیحات کا عام پاکستانی سے کوئی موازنہ نہیں ہوتا۔ عام پاکستانی دو وقت کی روٹی کا محتاج ہوچکا ہے مگر اشرافیہ کے پالتو جانور غیر ملکی خوراک کھاتے ہیں جس کا معیار عام پاکستانی کو دستیاب خوراک سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہوتاہے بہرکیف عالمی مالیاتی فنڈز کسی ملک کے پاس خود چل کر نہیں جاتا کہ اِس سے قرض لیا جائے ہم یا ہمارے جیسے ممالک خود اپنی مجبوریوں کے باعث چل کر اُس کے پاس جاتے ہیں، وہی مجبوریاں جو دراصل ہماری کوتاہیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہوتی ہیں، ہم اپنے معاملات ٹھیک نہیں کرتے مگر اِس ادارے کو اتنا برا گردانتے ہیں کہ شیطان بھی شرماجائے۔ ہم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک ایک پائی کا حساب مانگتا ہے تو اِس میں برا ہی کیا ہے، دیکھا جائے تو بنیادی نقص پاکستان کے معاشی، انتظامی و سیاسی نظام میں ہے اور بوجوہ ان کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور عوام کو قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے۔ سیاست دان کبھی اپنے سیاسی اور مالی مفادات کو آنچ نہیں آنے دیتے لہٰذا دیکھیں کتنے ہی شعبے ہیں جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں یا ان پر کوڑیوں ٹیکس لیا جارہا ہے لیکن حال ہی میں اشیائے ضروریہ پر ٹیکس سترہ سے اٹھارہ فیصد کردیاگیا ہے۔ کئی محکمے اپنے ملازمین کو بجلی، پانی، گیس تاحیات بلکہ اِن کی آنے والی نسلوں کو مفت دیتے ہیں لیکن ایک غریب بیچارے کا عدم ادائیگی پر میٹر منقطع کرنے میں ایک پل کی تاخیر نہیں کرتے۔ کتنے ہی افسران ایسے ہیں جو زندگی بھر شاہانہ طرز کی سرکاری آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور بعد از ریٹائرمنٹ انہیں بھاری مشاہروں پر دوبارہ بھرتی کرلیاجاتا ہے اور بعض مثالیں تو ایسی ہیں کہ ان کی ایک ماہ کی پنشن ایک غریب اور پاکستانی کی زندگی بھر کی کمائی کے برابر دیکھی گئی ہے۔ ہمارے مسائل اور اُن کا حل بہت آسان اور واضح ہے لیکن اِن کو حل کرنے کے لیے نیک نیتی کا فقدان ہمیشہ دائمی مسئلہ رہاہے۔ آپ اپنے لیے ہر راہ نکال لیتے ہیں اور ہم سے قربانی مانگتے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں آقا دو جہاں محمد مصطفیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ ميں قیامت کے دن تین افراد کامقابل ہوں گا(یعنی سخت سزا دوں گا)پہلا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے۔دوسرا وہ جو کسی آزاد انسان کو بیچ دے اور پھر اس کی قیمت کھالے اور تیسرا وہ شخص جس نے کوئی مزدور اُجرت پر لیا اور پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اس کی اُجرت اسے نہ دی۔لہٰذا سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ ایسے لوگ جو عام اور بے کس انسانوں کا استحصال کرتے ہیں اُن کے لیے آخرت میں کیا رکھاگیا ہے۔ ہم بلاتمیز و تفریق ایک ساتھ کھڑے ہوگئے تو دنیا کا کوئی ایسا بحران نہیں ہے جو ہم پاکستانی ختم نہ کرسکیں مگر ملکی نظام کو رشوت ستانی اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کے ہتھکنڈوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے مگر افسوس وہی طاقت میں ہیں اور ہمارا استحصال کررہے ہیں چونکہ وہ اِس استحصالی نظام کا حصہ بن کر اشرافیہ کے دست راست اور ہمنوا ہیں اِس لیے وہ اصلاحات کے نام پر کسی بھی محاصرے میں نہیں آئیں گے، جب تک ملک میں کسی کو بھی استثنیٰ حاصل رہے گا ہم آئی ایم ایف کے محتاج رہیں گے اور پھر آئی ایم ایف اور اِس جیسے اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس مقصد کے لیے خلوص نیت کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گااور جب تک خلوص نیت کا فقدان رہے گا ہم انہی حالات سے دوچار رہیں گے۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا ہم پاکستان پر دو اہم نکات پر زور دے رہے ہیں، پاکستان کے لیے پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے اور بلاشبہ منی بجٹ کی صورت میں وہ ٹیکس عام پاکستانیوں پرعائد کردیاگیا ہے جو پہلے ہی ریلیف مانگ رہے تھے اور اب غربت کی لکیر سے بھی نیچے پہنچ چکے ہیں انہوں نے دوسرا نکتہ مزید مشکل اور ناقابل پیش کیا ہے کہ پاکستان میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے یعنی اشرافیہ، سیاست دان، مزدور، سفید پوش سبھی ایک ہی صف میں، محمود و ایاز کی طرح۔ یعنی آئی ایم ایف وہی ہم سے چاہ رہا ہے جو ریاست مدینہ میں تھا بلاشبہ آئی ایم ایف نے ریاست مدینہ کے نظام سے ہی سیکھا ہوگا کیونکہ وہاں رحمت للعالمینﷺ نے دنیائے انسانیت کو ایسا نظام دیا تھا جو رہتی دنیا کے لیے مثالی ہے اور آج تک کوئی بھی معاشرہ اِس نظام کا متبادل نظام نہیں لاسکا۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان میں غریب کو سبسڈی دی جائے کیونکہ انہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انہیں سبسڈی ملے ، دیکھاجائے تو یہ بھی ناقابل عمل ہے کیونکہ آج تک ایسا نظام ہی وضع نہیں ہونے دیاگیا جس میں غریب کو چھوٹ ملے اور امیر کو ٹیکس دینا پڑے، آج کھرب پتی بھی اِسی بھائو پر پٹرول خرید رہا ہے جس بھائو پر غریب موٹر سائیکل سوار، گندم، چینی غرضیکہ کوئی ایک بھی شے ایسی نہیں جس میں اشرافیہ ، غریب کا حق نہ مار رہا ہو۔ آپ بھی دیکھئے اور ہم بھی دیکھتے ہیںکہ آئی ایم ایف ہماری اِس روش کو کیسے ختم کرتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button