ColumnKashif Bashir Khan

کہیں پچھتاوے نہ رہ جائیں! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

ایک زمانہ تھا جب جس نے الیکشن لڑنا ہوتا وہ بھی حکومت میں رہ کر الیکشن لڑ سکتا تھا جیسے1988 میں نواز شریف پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ تھے اور غلام مصطفی جتوئی 1990 میں نگران وزیر اعظم بنے تھے۔بعد میں قوانین میں تبدیلی کی گئی اور جو شخص بھی نگران حکومت میں شامل ہوتا وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔گزشتہ ماہ جب تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑیں تو دونوں صوبوں میں جو نگران حکومتیں بنیں ان پر پہلے دن سے ہی اُنگلیاں اٹھنی شروع ہو گئی تھیں بالخصوص پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کو اپوزیشن سمیت کسی نے بھی طبقہ نے قبول نہیں کیا تھا۔پنجاب کی نگران حکومت نے حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور جو شریف فیملی کو صرف اس وجہ سے کھٹکتے تھے کہ وہ لاہور کے قبضہ گروپوں کے خلاف بہت ہی موثر کارروائیاں کر رہے تھے، کو فوراً تبدیل کر دیا۔نگران حکومت نے تبادلوں کاایسا طوفان برپا کیا کہ سب پریشان ہو گئے اور بیورو کریسی میں بھی بددلی پھیلنا شروع ہو گئی۔25 مئی کو جس پولیس چیف لاہور نے عوام پر وحشیانہ تشدد کیا اور انسانی حقوق کی شدید پامالی کے ساتھ عوام کو آزادی رائے اور آزادی نقل و حرکت سے ریاست کے ذریعے روکا ، کو دوبارہ لاہور کا پولیس چیف لگاتے نے ہی پنجاب کی نگران حکومت کے جانبدرانہ عزائم کا پول کھول دیا تھا اور بعد کے اقدامات نے سپریم کورٹ کو مجبور کر دیا کہ وہ ان تبادلوں کے تماشے کو پانچ ججوں کے بنچ کو بھیجیں۔ غلام محمود ڈوگر کو گو کہ سپریم کورٹ نے بطور لاہور پولیس چیف بحال کر دیا ہے لیکن تادم تحریر بلال صدیق کمیانہ چارج صرف اس لیے نہیں چھوڑ رہے کہ ابھی سپریم کورٹ کے تحریری احکامات نہیں ملے۔اگر ایک جانب چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ کے بلانے پر بیماری کا بہانہ بنا کر جمعہ کےروز سپریم کورٹ پیش نہیں ہوئے تو گریڈ 21 کا ایک پولیس آفیسر بھی سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے غلام محمود ڈوگر کو بحال تو کردیا لیکن پنجاب میں سپریم کورٹ کے احکامات پر غلام محمود ڈوگر کو لاہور پولیس چیف لگانے کے باوجود زبانی احکامات پر پنجاب نگران حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ سے تبدیل کرنے پر سزا کون دے گا؟عوام الناس اور سنجیدہ حلقے اس بات کا جواب مانگ رہے ہیں کہ جب حمزہ شہباز شریف کو غیر ئٓہینی وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو شریف خاندان سے درجنوں نیک نام پولیس افسران کو چھوڑ کر بلال صدیق کمیانہ کو لاہور پولیس چیف کیوں لگایا تھا اور اب نگران حکومت نے بھی اسی افسر کو لاہور میں غیر قانونی طور پر بقول چیف الیکشن کمشنر زبانی احکامات پر لاہور پولیس چیف کیوں لگایا؟گویا حمزہ شہباز شریف کی غیر آئینی پنجاب حکومت اور نگران پنجاب حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔پاکستان میں آئین کی جو دھجیاں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کی تاریخ نہ دے کر چیف الیکشن کمشنر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنر اڑا رہے ہیں وہ متقاضی ہیں بلکہ عوام اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان دونوں گورنرز اور چیف الیکشن کمشنر کو کٹہرے میں کھڑا کر کے دونوں گورنرز کا آئین میں عدالتوں میں طلب نہ کرنے کا استحقاق ختم کریں
الیکشن کمشنر کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے دو خطوط، جو انہوں نے دونوں صوبوں کے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے لکھے تھے، میں سے ایک کا جواب بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نہ دیا اور دوسرے میں صدر پاکستان کی جانب سے ملکی معاملات پر’’بے حسی‘‘کے الفاظ پر تحفظات دکھا کر اپنے آپ کو قانون و آئین سے بالاتر ثابت کرنے کی دانستہ غیر آئینی کوشش کی ہے۔مجھے افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا آئین پاکستان سے انحراف اور آئینی انتخابات سے بھاگنے کی کوششوں کے تناظر میں لوگ سوشل میڈیا پر اسلام آباد ،پشاور اور اب کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کو بھی مشکوک قرار دے رہے ہیں اور انہیں بھی الیکشن سے فرار کے تناظر میں’’انجینئرڈ‘‘کہہ رہے ہیں۔
جس طرح سے ترقی کی جانب جاتی ہوئی پاکستانی معیشت کو اتحادی حکومت نے گزشتہ اپریل سے اب تک تباہ و برباد کیا ۔ اس کی مثال نہیں مل سکتی آج جب پاکستان میں شدید سیاسی کشیدگی اور بحران ہے اور جمعرات کی شب لاہور کے پولیس چیف بلال صدیق کمیانہ نے جس طرح لاہور پولیس کو زمان پارک کے گرد و نواح میں سینکڑوں کی تعداد میں قیدیوں کی وین کے ساتھ بھیجا اور ہزاروں کارکنوں کی شدید مزاحمت کے بعد انہیں واپس جانا پڑا ایسا کرنا نہایت ہی خوفناک تھا اور یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بڑے سانحہ کی دانستہ کوشش تھی۔اس وقت موجودہ وزیر داخلہ پنجاب کے وزیر داخلہ تھے تب ماڈل ٹاؤن میں شہریوں پر فائرنگ کر کے ان کی جانیں لی گئی تھیں۔ایسے بدترین حالات میں شہباز شریف کا دورہ ترکی حیران کن ہے۔نون لیگ اور وفاقی وزیر داخلہ نے ماضی کی طرح عدلیہ کی تذلیل شروع کر دی ہے اور آڈیو لیکس کا گھناؤنا کھیل تیز کر دیا ہے۔سپریم کورٹ کے ججوں کی آڈیولیکس جاری کرنا ریاست کیلئے نہایت ہی خطرناک عمل ہے اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان کو ان ایکشن ہونا ہی پڑے گا کہ لمحہ لمحہ بیت رہا ہے اور آئین پاکستان میں متعین 90 دن میں سے قریبا 30 دن گزر چکے ہیں اور عوام کو ان کے رائے حق دہی سے محروم کرنے کی ہر ممکن غیر آئینی کوشش کی جارہی ہے جبکہ عمران خان بدھ کے روز سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان جو آئین پاکستان کی تشریح کرنے اور اس کے نفاذ کا ضامن ہے، کی ذمہ داری بڑھ چکی ہے اور عوام کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ کی جانب ہیں کہ وہ پاکستان میں ہونے والے غیر آئینی و قانونی اقدامات پر فوری نوٹس لے اور انتخابی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بناے ورنہ لمحہ لمحہ تو بیت ہی رہا ہے اور بعد میں ہم سب’’اب جو تم پچھتاؤ تو کیا‘‘ کے مصداق ہاتھ نہ ملتے رہ جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button