ColumnJabaar Ch

سُپر کنگ .. جبارچودھری

جبارچودھری

 

ایس ایم سی آر(SMCR)ماڈل کو کمیونی کیشن(ابلاغیات یا پیغام رسانی)کے بنیادی ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔اس ماڈل کے بارے میں ابتدائی طورپرہمیں بی اے کی کلاس میں استاد محترم حافظ زاہد یوسف صاحب نے پڑھایا۔زاہد یوسف صاحب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مجھے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ماس کمیونی کیشن کرنے کی ترغیب دی ۔ حافظ زاہد یوسف صاحب اس وقت گجرات یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن کے شعبے کے سربراہ ہیں،بی اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیاتواستاد محترم اے آرخالد صاحب کمیونی کیشن کے پیریڈ میں کلاس میں آئے ،انہوں نے ایس ایم سی آرماڈل سے ہی کورس کا آغازکیا۔مزید وضاحت کیلئے سلائیڈزبھی لے آئے۔انہوں نے دوتین دن میں کمیونی کیشن کے اس ماڈل پر ہماری باقاعدہ تسلی کروادی۔اس کے بعد بھی کمیونی کیشن کے کئی ماڈلزکورس میں پڑھے اور پڑھائے گئے لیکن یہ والا ماڈل آج بھی ایسے ہی یاد ہے جیسے پہلے دن تھا۔
ایس ایم سی آرماڈل میں پیغام رسانی کیلئے چار چیزیں ضروری ہوتی ہیں پہلے نمبر پر سینڈریعنی پیغام بھیجنے والا بندہ،دوسرے نمبرپر میسیج یعنی پیغام، تیسرے نمبرپرچینل یعنی وہ ذریعہ جس کے توسط سے کوئی پیغام رسانی کی جاتی ہے،یہ چینل لاؤڈ سپیکر،ٹی وی،ٹیلی فون اورکوئی شخص بھی ہوسکتاہے ۔چوتھے اورآخری نمبرپرریسور یعنی وہ شخص جس تک پیغام پہنچایاجانا مقصود ہوتا ہے۔یہ کوئی ایک شخص بھی ہوسکتا ہے اور بہت سے عوام بھی۔پیغام رسانی کے اس بنیادی اور سادے سے ماڈل کی تھوڑی تشریح میں جائیں توپیغام میں ایک شور(Noise) کا ذکر آتا ہے ۔شورپیغام رسانی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ چینل یا ذریعہ جتنا کمزورہوگا شور اتنا ہی طاقتور ہوکر اس پیغام کو نقصان پہنچائے گا۔جتنا پیغام واضح اور چینل اچھا ہوگا پیغام اتنا ہی موثر اورواضح ہوگا لیکن اگر پیغام پہنچانے والا ایسے چینل یا پیغامبرکا انتخاب کرتا ہے جو براہ راست لوگوں تک نہ پہنچے ایسی صورت میں پیغام کے بگڑنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔
مجھے کمیونی کیشن کا یہ ماڈل آج اس لیے شدت سے یاد آیا کیونکہ جنرل ریٹائرڈقمرجاوید باجوہ جن ذرائع سے پیغام رسانی کررہے ہیں اس میں شور اس قدر زیادہ ہے کہ یہ شورپیغام کو ہی نہیں بلکہ پیغام بھیجنے والے یعنی باجوہ صاحب کو بھی نقصان پہنچارہا ہے۔ جنرل باجوہ صاحب اپنا پیغام پہنچانے کیلئے جو چینل استعمال کررہے ہیں مسئلہ اس چینل میں ہے یا پیغام میں؟ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب تک کی حقیقت یہ ہے کہ اس پیغام رسانی نے جنرل صاحب کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا ہے۔جنرل باجوہ صاحب نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کیلئے اب تک مبینہ طوپرتین شخصیات کو ذریعہ بنایاان میں سب سے پہلے سینئر اینکرپرسن منصور علی خان صاحب تھے جنہوں نے ان کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد کچھ افواہوں اور خبروں کی تردیداپنے وی لاگزمیں کی ۔اس کے بعد اینکرپرسن اور کالم نگار جاوید چودھری صاحب نے اپنے کالموں میں سات گھٹنے کی ملاقات کا ذکرکیا۔ان کے کالم میں ہی ایک لائن تھی کہ ’’ہماری ریڈنگ تھی کہ اگر عمران خان مزیدرہ جاتاتوملک تباہ ہوجاتا‘‘اس لائن کی جنرل باجوہ نے تردید منصورعلی خان کے ذریعے کی۔جنرل صاحب کا پیغام چونکہ براہ راست یعنی ان کی اپنی زبان سے کسی ویڈیو کی صورت میں ٹی وی یاسوشل میڈیاپر نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنی کہانی ایک کالم نگار کو سنائی ۔کالم نگار نے سوالات کیے اور جب وہ لکھنے بیٹھے توانہوں نے اپنے اسلوب میں اس کو لکھ دیا۔اب کہنے اور لکھنے میں اثرپذیری کا بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔مجھے بھی اگر کوئی اپنی کہانی سنائے گاتو لکھتے وقت کچھ اوپر نیچے ہوجانا عین ممکن ہے یہی کچھ جاوید چودھری صاحب نے کیا توجنرل صاحب کو منصورعلی خان صاحب کے ذریعے اس کی تردید کرواناپڑی۔اس کے بعد ایک وی لاگ آفتاب اقبال صاحب نے بھی کیا جس میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ جنرل باجوہ نے انہیں خود بتایا کہ وہ عمران خان صاحب کی ویڈیوزریکارڈ کیا کرتے تھے۔جنرل باجوہ کے ان پیغاما ت کو لے کرعمران خان نے صدرعارف علوی کو جنرل باجوہ کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کردی ہے۔عمران خان نے اپنے خط میں جاوید چودھری کے کالم اور ا ٓفتاب اقبال کے وی لاگز کا حوالہ دیا ہے۔
جنرل باجوہ اور عمران خان کے پیغام میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ عمران خان جو بولتے ہیں وہ خود بولتے ہیں ۔بالکل واضح اوراونچی آواز میں بولتے ہیں۔ٹارگٹڈ گفتگو کرتے ہیں۔ بار بار کرتے ہیں۔وہ اپنی ہر گفتگومیں جنرل باجوہ کو ایک ولن کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔وہ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ ایک ’’سپر کنگ ‘‘تھے اور میں صرف ایک چہرہ جس کے پاس اختیار کوئی نہیں تھا بس ناکامیوں کی ذمہ داریاں لینے والا وزیراعظم تھا۔عمران خان کہتے ہیں کہ وہ ایک’’ پنچنگ بیگ‘‘ تھے اورجنرل باجوہ باکسنگ گلوزپہن کرپریکٹس کرتے تھے۔ عمران خان کی باتوں میں کتنی صداقت ہے یہ بات تحقیق اور تحقیق طلب اس لیے بھی ہے کہ عمران خان جب تک وزیراعظم آفس میں رہے اس وقت تک اگر کوئی جنرل باجوہ کا سب سے بڑادفاع تھا تو وہ خود عمران خان صاحب تھے۔میں سینئراینکرپرسن پارس جہانزیب صاحبہ کے شوکیلئے دسمبردوہزار بیس میں وزیراعظم عمران خان صاحب کا انٹرویوکرنے وزیراعظم ہاؤس گیا۔اس انٹرویومیں پارس جہانزیب صاحبہ نے جنرل باجوہ صاحب بارے کم ازکم پانچ مختلف سوال کیے ۔یہ انٹرویوآج بھی یوٹیوب پر موجود ہے ان سوالوں کے جواب میں عمران خان صاحب نے جنرل باجوہ کا اس قدر’’کنوکشن ‘‘سے دفاع کیا کہ اتنی وضاحت سے شاید وہ اپنااوراپنی حکومت کا بھی ایسے دفاع نہیں کرپائے تھے۔
ان سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ پہلے جرنیل ہیں جو جمہوری جرنیل ہیں۔میں ان کا باس ہوں اوروہ پوری طرح ہماری حکومت کے ساتھ ہیں اور ہماری مدد کررہے ہیں ۔ان جیسا آرمی چیف کبھی نہیں آیا۔یہ باتیں آج بھی آرکائیوزمیں موجود ہیں تو اگر آپ عمران خان صاحب کی ان باتوں پر یقین کریں توآپ کو کسی طرف سے بھی نہیں لگے گا کہ باجوہ کوئی سپر کنگ تھے کیونکہ ہمیں تو اس وقت وزیراعظم ہی خود بتاتے تھے کہ میں باجوہ کا باس ہوں ۔اس وقت بھی ان کی خواہش تھی کہ سب لوگ ان کی باتوں کا یقین کریں کہ واقعی عمران خان آرمی چیف کے باس ہیں آج بھی ان کی خواہش ہے کہ لوگ ان کی باتوں کایقین کریں کہ باجوہ سپر کنگ تھے اور عمران خان صرف ایک ڈمی یا کٹھ پتلی وزیراعظم تھے۔سب کام باجوہ کرتے تھے لیکن الزامات کیلئے عمران خان تھے،اب انہوںنے جنرل باجوہ کے پیغامات کو بنیاد بناکر یہ تک کہہ دیا کہ جنرل باجوہ کی یہ باتیں ان کا اعتراف ہے کہ انہوں نے ہی ان کی حکومت گرائی ہے اور وہی رجیم چینج کے ماسٹر مائنڈہیں۔اسی بنیادپرانہوں نے صدر کو بھی خط لکھ دیا ہے۔اب صدر صاحب کیا کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن میرا سوال جنرل باجوہ کے پیغام میں اس شور کا ہے جس کا فائدہ عمران خان صاحب اور انکی پارٹی پوری طرح اٹھارہی ہے۔
جنرل باجوہ صاحب کے ان انٹرویوز پر مختلف آرا ہیں پہلی رائے تو یہ ہے کہ جنرل باجوہ صاحب نے اگر خود کہا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی کی زندگی میں چلے جائیں گے تو انہیں واقعی گمنامی کی زندگی میں چلے جانا چاہیے تھا تاکہ یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتے لیکن باجوہ صاحب نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف اینکرزسے خودرابطے کرنا شروع کردیے اورکئی اینکرزسے ملاقات بھی کرنے لگے۔انہوںنے صحافیوں کو اپنا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری بھی دی ۔اب ان کی سائیڈکی کہانی اس لیے بھی کمزوراور دھندلی ہے کہ کہانی سنانے والے وہ خود نہیں ہیں یعنی ان کے پیغام میں شورزیادہ ہے جو ان کے الفاظ میں چھپا ہوا پیغام واضح نہیں ہونے دے رہا۔دوسری رائے یہ ہے کہ جنرل صاحب کو مبینہ ذرائع استعمال کرنے کی بجائے خود سامنے آنا چاہیے۔مجھے معلوم نہیں کہ جنرل صاحب کے خود ٹی وی پر آنے یا سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست مخاطب ہونے میں کیاقانونی قدغن ہے لیکن میری بھی بطور ایک کمیونی کیشن کے طالب علم کے رائے یہی ہے کہ پیغام میں شورکوختم کرنے اورپیغام کو مؤثربنانے کیلئے انہیں خود اپنی زبان سے بات کہنی چاہیے۔اس طرح ان کا پیغام مؤثر بھی ہوگا اوراس کو کوئی بھی اپنی پسند کے معنے نہیں پہناسکے گا۔اگر باجوہ صاحب سب کچھ آئین کے اندررہ کر کررہے تھے تو بھی سب کو معلوم ہوجائے گا اوراگر وہ سپرکنگ تھے توبھی فیصلہ لوگ کرلیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button