ادبتازہ ترینخبریں

سیما غزل, پیدائش:17فروری 1964ء

ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھائو آنکھیں تھیں

پیدائش لاہور میں جمیل الدین عالی(چچا) کے گھر ہوئی لیکن کراچی میں پروان چڑھی۔ وہیں تعلیم حاصل کی۔ ادبی گھرانے سے تعلق ہے۔ والد شاعر اور ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر تھے۔ ریڈیو سے ”آئو بچو کہانی سنو“ لکھنے سے شروعات کی۔ پھر 1989 میں پاکستان کے مشہور رسالہ ”دوشیزہ“ کی ایڈیٹر رہیں اور ساڑھے 12 سال ذمےداری نبھائی۔ پھر ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھنے لگیں۔ کئی ڈرامے بے پناہ مشہور ہوئے جن میں مہندی، چاندنی راتیں، انا، ہم سے جدا نہ ہونا کو لگاتار ہر سال لکس ایوارڈ ملے۔ اب تک تقریبا” 400 سے زیادہ ٹی وی ڈرامے لکھ چکی ہیں جس میں سے 375 سے زیادہ آن ائر آچکے ہیں اب بھی 4 سے زیادہ ڈرامے آن ائر ہیں جن میں اے آر وائی پہ ”دل نہیں مانتا“، ہم ٹی وی پہ ”دے اجازت جو تو“ ہم 2 پہ ”شدت“۔ زی زندگی انڈین چینل پہ ”میرا سایہ“، پی ٹی وی پہ دو سیریئلز ”نا آشنا“ اور ”چاہت“ ہے۔ ایک شعری مجموعہ ”میں سائے خود بناتی ہوں“ 2013 میں چھپا ہے اور اس کو 2013 کا پروین شاکر ”خوشبو“ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 7 ناولز لکھے جو مارکیٹ اور نیٹ پر موجود ہیں جن میں ”چاند کے قیدی“، ”کمند“، ”زرد پتوں کا بھنور“ ۔ ”کوری آنکھیں کال بیل“ ، ”اندھی رات کا بیٹا“ اور ”آدھا وجود“ ہیں. نظموں کی کتاب چھپنے کے مراحل میں ہے۔ کراچی میں ایک ادبی تنظیم ” سائبان“ کی چئرپرسن ہیں ۔

غزل
۔۔۔۔۔
اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں
عشق طوفاں میں ناؤ آنکھیں تھیں
راستہ دل تلک تو جاتا تھا
اس کا پہلا پڑاؤ آنکھیں تھیں
ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھاؤ آنکھیں تھیں
جن کو اس نے چراغ سمجھا تھا
اس کو یہ تو بتاؤ آنکھیں تھیں
دل میں اترا وہ دیر سے لیکن
میرا پہلا لگاؤ آنکھیں تھیں
قطرہ قطرہ جو بہہ گئیں کل شب
آؤ تم دیکھ جاؤ آنکھیں تھیں

غزل
۔۔۔۔۔
بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس
جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس
آیا ہی تھا خیال کہ پھر دھوپ ڈھل گئی
بادل تمہاری یاد کا برسا تھا اور بس
ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے
ہاں اک دیا دریچے میں رکھا تھا اور بس
تم تھے نہ کوئی اور تھا آہٹ نہ کوئی چاپ
میں تھی اداس دھوپ تھی رستہ تھا اور بس
یوں تو پڑے رہے مرے پیروں میں ماہ و سال
مٹھی میں میری ایک ہی لمحہ تھا اور بس

غزل
۔۔۔۔۔
سانس کی مہلت کیا کر لے گی
اب یہ سہولت کیا کر لے گی
بے بس کر کے رکھ دے گی نا
اور محبت کیا کر لے گی
کیا کر لے گا چارہ گر بھی
درد کی شدت کیا کر لے گی
ایک جہنم کاٹ لیا ہے
اب یہ قیامت کیا کر لے گی
میں ہی اپنے ساتھ نہیں جب
اس کی رفاقت کیا کر لے گی
میرا آنگن صحرا جیسا
دشت کی وحشت کیا کر لے گی

اشعار
۔۔۔۔۔
آواز میں نے سنی تھی ابھی کون بولا تھا یہ تو خبر ہی نہیں
یہ تعلق ضروری ہے کس نے کہا وہ بھی خاموش تھا میں بھی خاموش تھی

خود اپنے آپ سے ملنے کی خاطر
ابھی کوسوں مجھے چلنا پڑے گا

میں نے کہا تھا مجھ کو اندھیرے کا خوف ہے
اس نے یہ سن کے آج مرا گھر جلا دیا

مجھ کو اس کے نہیں خود میرے حوالے کرتے
کم سے کم یہ تو مرے چاہنے والے کرتے

ایسے کچھ حادثے بھی گزرے ہیں
جن پہ میں آج تک نہیں روئی

میں ایک روز اسے ڈھونڈ کر تو لے آؤں
وہ اپنی ذات سے باہر کہیں ملے تو سہی

سرد ہوتے ہوئے وجود میں بس
کچھ نہیں تھا الاؤ آنکھیں تھیں

بے قراری سے مرے پاس وہ آیا لیکن
اس نے پوچھا بھی تو بس یہ کہ فلاں کیسا ہے

جذبوں پر جب برف جمے تو جینا مشکل ہوتا ہے
دل کے آتش دان میں تھوڑی آگ جلانی پڑتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button