ColumnRoshan Lal

امریکہ میں زہریلی گیسوں کا اخراج .. روشن لعل

روشن لعل

 

دورحاضر میں دنیا کے تمام انسانوں کے سروں پر جو خطرہ مخفی یا ظاہری طور پر سب سے زیادہ منڈلا رہا ہے وہ ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والی تباہی کا ہے ۔ماحولیاتی آلودگی کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ،گزشتہ برس ہمارے ملک میں ہونے والی تباہ کن بارشوں کے دوران پاکستان کے لوگ براہ راست اور دیگر دنیا بالواسطہ طور پر دیکھ چکی ہے۔ جو امر دنیا میں سب سے زیادہ ماحول کی تباہی کا باعث بن رہا ہے وہ فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج ہے۔ جن ذرائع سے فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج ہو سکتا ہے ان میں سے ایک صنعتی عمل اور دوسرا زہریلی گیسیں اور کیمیائی مادے تیار کرنے والے پلانٹ یا انہیں سٹور کرنے والے مقامات اور کنٹینر وں پر رونما ہونے والے حادثات ہیں۔صنعتی عمل کے دوران خارج ہونے والی گیسیں انسانوں اور ماحوال کو سست اثر زہروں کی طرح نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ کسی حادثہ کی وجہ سے ہونے والا زہریلی گیسوں اور کیمیائی مادوں کا اخراج نہ صرف فوری طور پر انسانوں، ماحوال اور انفراسٹرکچر کے نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ اس کے مضر اثرات طویل عرصہ تک حادثے کی جگہ اور اس سے ملحقہ مقامات پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل امریکی ریاست اوہائیومیں واقع مشرقی فلسطین نامی قصبے کے قریب ہونے والے مال گاڑی کے حادثے کے دوران ٹرین کے کئی کنٹینروں سے بہت بڑی مقدار میں زہریلے کمیائی مادے خارج ہوئے۔ان کیمیائی مادوں کو لگائی گئی آگ کے نتیجے میں فضا میں جو زہریلی گیسیں پھیلیں ان کے متعلق خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کے ماحول پر وہی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کسی حادثے کی وجہ سے فضا میں خارج ہونے والی گیسوں کے ہوتے ہیں۔ اوہائیو ٹرین حادثے کے فوراً بعد ایک سے زیادہ ایجنسیاں یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ وہاں ہونے والی گیسوں کے اخراج کے کیا فوری اثرات مرتب ہوئے اور کیا دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
کسی حادثے کی نوعیت چاہے جو بھی ہو اس پر عام انسانوں کی طرف سے زیادہ تر افسوس اور بعض معاملات میں غم و غصے کا اظہار بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ آج کا باشعور انسان اپنے ماحوال کے حوالے سے اس قدر حساس ہو چکا ہے کہ اگر کوئی ایسا حادثہ رونما ہو جائے جس کی وجہ سے فضا میں آلودگی پھیلنے یا ماحول تباہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتاہو تو اس طرح کے حادثوں پر اس کا رد عمل نہ صرف کسی عام حادثے کی نسبت مختلف ہوتا ہے بلکہ زیادہ تشویش کا اظہار بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ امریکی ریاست اوہائیو کے جس حادثے میں ٹرین کے تباہ ہونیوالے کنٹینروں سے زہریلے مادے اور گیسیں خارج ہوئیں اس حادثے کوصرف ماحول پر مرتب ہونے والے ممکنہ نقصان دہ اثرات ہی نہیں بلکہ کچھ دیگر حوالوں سے بھی تشویشناک اور عجیب سمجھا جارہا ہے ۔
اوہائیوٹرین حادثے سے متعلق جو تفصیلات سامنے آچکی ہیں ان کے مطابق 3 فروری کو 150 بوگیوں اور کنٹینروں پر مشتمل میڈیسن سٹیشن سے کون وے سٹیشن کی طرف جانے والی مال گاڑی جب مشرقی فلسطین نامی قصبے کے قریب سے گزر رہی تھی تورات نو بجے اس کی 38 بوگیاں پٹڑی سے نیچے اترنے کی وجہ سے اس میںآگ لگ گئی۔ نورفوک سدرن (Norfolk Southern) ریلوے ٹرانسپورٹ کمپنی کی ملکیت اس مال گاڑی میں کچھ کنٹینر ایسے بھی تھے جن میںوینائل کلورائیڈ( vinyl chloride) نامی زہریلے اور آتش گیر کیمیائی مادے کی بہت بڑی مقدار موجود تھی۔ وینائل کلورائیڈ کے حامل20 کنٹینر آگ لگنے سے تو محفوظ رہے تھے مگر مال گاڑی کے پٹڑی سے اترنے کے دوران انہیں جو نقصان پہنچا تھا اس کی وجہ سے ان کے پھٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ کنٹینر اچانک پھٹ جاتے تواس کا نتیجہ بھوپال گیس واقعہ کے دوران ہونے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہوتا۔لہٰذا اس نقصان سے بچنے کیلئے 6 جنوری کو پہلے تو کنٹینروں میں موجود وینائل کلورائیڈ کو ایک کھائی میں گرایا گیا اور پھر وہاں اسے آگ لگا دی گئی۔ اس عمل سے قبل حادثے کے مقام سے قریب تر آبادی کا انخلا کرادیا گیا۔ وینائل کلورائیڈ کس قدر نقصان دہ کیمیائی مادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب لوگ خالی کرائے گئے علاقے میں اپنے گھروں کو واپس آئے تو انہیں وہاں پالتو اور جنگلی جانور مردہ حالت میں دیکھنے کو ملے۔
اوہائیو ٹرین حادثے کے بعد وہاں جو فیصلے لیے گئے انہیں اس وجہ سے قابل تنقید نہیں سمجھا جاسکتا کہ کم از کم ان کی وجہ سے کوئی انسانی جان ضائع نہیں ہوئی مگر جہاں تک مال گاڑی کے پٹڑی سے اترنے کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے کچھ ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مال گاڑی کی مالک کمپنی نورفوک سدرن کی غفلتوں سے میڈیا کی توجہ ہٹانے کیلئے بہت کچھ چھپانے کی کوشش کی گئی۔ اس ضمن میں کہا جارہا ہے کہ انتہائی حساس کیمیکل لے جانے والی مال گاڑی کا حادثہ انتہائی تشویش ناک واقعہ تھا مگر اس واقعہ کی بجائے میڈیا کی تمام تر توجہ امریکی ائیرفورس طیاروں کے ہاتھوں امریکی فضا میں اڑنے والے کچھ مشتبہ اجسام کو تباہ کیے جانے پر مبذول کرادی گئی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب 1984 میں بھوپال بھارت میں گیس لیکیج سے ہزاروں جانیں ضائع ہونے اور 1986 میں مرحوم سوویت یونین میں چرنوبل ایٹمی پلانٹ کا واقعہ ہوا تو امریکی اور یورپی میڈیا نے کہا تھا کہ مجرمانہ غفلتوں اور تکنیکی عملہ کی ناکافی مہارت کی وجہ سے یہ واقعات رونما ہوئے۔ اوہائیوٹرین حادثے کے بعد گو کہ فوری طور پر چند ہزار مچھلیاں اور کچھ سو جنگلی جانوروں کی ہلاکتوں کے علاوہ کوئی دوسرا جانی نقصان اب تک سامنے نہیں آیا مگر اس کے باوجود یہ بات طے ہے کہ مال گاڑی کے پٹڑی سے نیچے اترنے پر اگر دوسری بوگیوں کی طرح وینائل کلورائیڈ سے بھرے ہوئے کنٹینروں کو بھی آگ لگ جاتی تو جو نقصان ہوتا اس واقعہ کو شاید چھوٹا چرنوبل کہا جاتا۔ ایسا ہونا کسی طرح بھی خارج ازامکان نہیں تھا ، اگر ایسا ہوتا تو صاف ظاہر ہے کہ نور فوک ریلوے ٹرانسپورٹ کمپنی کے عملہ کی اس غفلت اور تکنیکی مہارت میں کمی کی وجہ سے ہوتا جس کے باعث میڈیسن سٹیشن سے کون وے سٹیشن کی طرف جانے والی مال گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔
نورفوک سدرن ریلوے ٹرانسپورٹ کمپنی نے اوہائیو ٹرین حادثہ کے بعد نہ صرف مشرقی فلسطین نامی قصبہ سے آبادی کے انخلا کے دوران متاثر ہونے والے لوگوں کیلئے کئی ملین ڈالر کے فنڈز مختص کیے ہیں بلکہ اس علاقے کی فضا، جھیلوں اور دریا میں کسی ممکنہ آلودگی کے ظاہر ہونے پر اس کے ازالے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے اعلانات اور اقدامات کے باوجود بھی نورفوک سدرن کمپنی کو تنقید کا نشانہ بنانے کی گنجائش موجود ہے مگر اس گنجائش کے استعمال نہ کیے جانے کی وجہ وہ سیاستدان ہیں جن کی انتخابی مہم پر 2020 کے امریکی انتخابات کے دوران نورفوک کمپنی نے کئی ملین ڈالر کا چندہ دیا تھا۔ ان سیاستدانوں میں صرف صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی ہی نہیں بلکہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار بھی شامل تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button