ColumnMazhar Ch

گورنر پنجاب کی حقیقت پسندی .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

گذشتہ دنوں ساوتھ ایشین کالمسٹ کونسل کے نمائندہ وفد کے ہمراہ گورنر پنجاب سے ہونے والی ملاقات میں ان کی جس خوبی نے متاثر کیا وہ ان کی حقیقت پسندی تھی۔پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کا دبائو اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا ہونے والی مشکلات کے ماحول سے کالم نگاروں کے تلخ و تند سوالات کا تحمل اور دلائل سے جوابات دینا آسان نہ تھا لیکن انہوں نے یہ مشکل مرحلہ پرسکون اور پراعتماد رہتے ہوئے اتنی آسانی سے عبور کیا کہ ہمیں ان کے تحمل اور بردباری کا قائل ہونا پڑا۔میرا استدلال تھا کہ سابقہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد پیش کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا لیکن حالات یہ ہیں کہ دیوالیہ پن کا خطرہ ابھی بھی ٹلا نہیں،آئی ایم ایف کا پروگرام جاری نہ رکھتے تو دیوالیہ پن کے خطرے سے دوچار معیشت کوسنبھالا دینا بہت مشکل ہے، آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے پروگرام جاری رکھنے کی معاشی قیمت عوام کو جب کہ سیاسی قیمت حکمران اتحاد خاص طور پر نون لیگ کو چکانی پڑے گی۔ گورنر صاحب نے میرے استدلال کو تسلیم کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک کے موجودہ دگرگوں معاشی حالات کی اصل ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ سابقہ حکومت نے اپنی نااہلی اور نا تجربہ کاری کے باعث اچھی بھلی معیشت کو ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ پہلے یہ لوگ کرونا کی آڑ میں چھپے رہے حالانکہ کرونا بھارت اوربنگلہ دیش میں بھی آیا تھا۔بھارت اور بنگلہ دیش کے برعکس ہمارے ہاں تو کرونا کے دنوں میں بھی ملک زیادہ تر کھلا رہا لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشی حالات میں پائیدار بہتری نہیں آ سکی۔سابقہ حکومت نے ساڑھے تین سالہ دور میں کسی بھی گذشتہ حکومت سے زیادہ قرضے لے کر ملک کو معاشی بحران کی طرف دھکیلالیکن وزیراعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی واضح کیا تھا کہ معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے کیے جانے والے سخت فیصلوں کی سیاسی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے لیکن وہ سیاست کی بجائے ریاست بچانے کوترجیح دیں گے اور یہ سچ ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے لیکن ان کی حکومت ملکی معیشت سمیت تمام شعبوں میں بہتری کیلئے کوشاں ہے، حکومت ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیارہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام اورا نتشار پھیلانے والوں کو ناکامی ہو گی۔سی پیک جیسے رک ہوئے منصوبوں پر کام شروع ہونے اور آئی ایم ایف سے معاملات طے ہونے کے بعد ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات ٹل چکے ہیں۔
پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے بارے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے گورنر صاحب کا کہنا تھا کہ انہوںنے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تو آئینی طور پر الیکشن کی تاریخ دینا ان کی ذمہ داری نہیں بنتی اور انہیں معلوم تھا کہ اسمبلی تحلیل کی ایڈوائس پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں بھی 48گھنٹوں میں اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اور کوئی آئینی رکاوٹ یا بحران پیدا نہیں ہو گا۔گورنر صاحب کا استدلال تھا کہ آئین میں واضح لکھا ہے کہ جب گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو الیکشن کی تاریخ دینا اس کی آئینی ذمے داری ہے لیکن گورنر کے دستخط کے بغیر اسمبلی تحلیل ہو تو اس صورت میں آئین نے کسی اتھارٹی کو الیکشن کی تاریخ دینے کا پابند نہیں کیا۔کوئی مانے نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گورنر صاحب کا استدلال اپنی جگہ درست ہے۔ گورنر صاحب سے ملاقات کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے آنے والے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد فوری الیکشن کی تاریخ دینے اور 90روز میں الیکشن کے انعقاد کویقینی بنانے کا حکم جاری ہوا۔ پنجاب میں انتخابات کیلئےالیکشن کمیشن اورگورنر پنجاب کے درمیان ہونے والا مشاورتی اجلاس اس حوالے سے بے نتیجہ رہا کہ اس اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوسکا، مشاورتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے گورنر پنجاب نے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کچھ امور اور گورنر کے مشاورتی کردار کے کچھ پہلو وضاحت اور تشریح طلب ہیں جس کیلئے قانونی اور آئینی ماہرین سے مشاورت کے بعد عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ دینے میں دانستہ تاخیر کر کے آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ چیف سیکرٹری اور فنانس نے افسران اور فنڈز دینے سے معذرت کر لی ہے، الیکشن کمیشن ایسے حالات میں کیسے الیکشن کی حتمی تاریخ دے سکتا ہے۔
ملاقات میں گورنر کے آئینی کردار اور اختیارات پر بھی بات چیت ہوئی۔کوئی شک نہیں کہ منتخب وزیراعلیٰ سے حلف نہ لینا،وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کرنا، وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہ کرنا اور الیکشن کی تاریخ نہ دینے جیسے اقدامات سے گورنر پنجاب شدید تنقید کی زد میں ہیں لیکن کالم نگاروں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں انہوں نے دلائل سے واضح کیا کہ وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹی فائی کرنے سے الیکشن کی تاریخ نہ دینے تک کے تمام کے تمام معاملات انہوں نے آئین کے مطابق سرانجام دئیے،دیکھا جائے تو ہمارے ہاں زیادہ تر گورنرز کا عہدہ پارٹی وفاداری سمیت کئی طرح کے الزامات وتنقیدکی زد میں رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ گورنر کا بے اختیار ہونا ہے۔کسی بھی معاملے میں حتمی اختیار نہ ہونے کے باعث گورنر وفاق میں برسراقتدار حکومت کی مرضی و منشاکے مطابق معاملات چلانے پر مجبور ہوتا ہے۔ پنجاب کے سابقہ گورنر عمر سرفراز چیمہ نے تو نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لینے سے انکارکے علاوہ آرمی چیف کو پنجاب میں سیاسی مداخلت کی دعوت بھی دے ڈالی تھی۔واضح رہے کہ عمر سرفراز چیمہ کے اس اقدام پر آئینی ماہرین نے شدید تنقید کی تھی، یہاں تک کہ سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری نے بھی ان کے اس اقدام کو آئینی اختیار کی بجائے اپنی جماعت سے وفاداری کے اظہار کا نام دیا تھامگرعمر سرفراز چیمہ کے مقابلے میں موجودہ گورنر پنجاب کے اقدامات تو پھر بھی آئین اور قانون کے دائرے میں دکھائی دیتے ہیں۔موجودہ گورنر پنجاب اپنے کیے گئے فیصلوں اور اٹھائے جانے والے اقدامات کی آئینی توجہیات دلائل کے ساتھ پیش کرتے رہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ دینے کے حوالے سے انہوںنے پہلے عدالت کو اپنی آئینی ذمہ داری سے آگاہ کیا اور اب الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورتی کردار کی تشریح اور وضاحت کیلئے بھی عدالت سے رجوع کیا ہے۔توقع ہے کہ عدالتی تشریح و وضاحت کے بعد گورنر صاحب اپنے آئینی کردار کے مطابق اقدام اٹھائیں گے۔ویسے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی بن گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button