Editorial

بجلی کے بعد گیس کی قیمتوں میں اضافہ!

 

وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں 17سے 112فیصد تک اضافہ کردیاہے۔ سلیب کی تعداد بھی6سے بڑھاکر 10کردی گئی ہے ۔ گیس کی قیمتوںمیں اضافے سے حکومت کو 310 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوگا۔اضافہ6ماہ کے لیے یعنی یکم جنوری سے 30 جون 2023 تک نافذ العمل رہے گا البتہ 50 کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین اضافے سے مستثنیٰ ہونگے۔گیس کی قیمتوں میں اضافہ گھریلو، کمرشل، پاور سیکٹر، کھاد، سیمنٹ انڈسٹری، برآمدی صنعتوں اور سی این جی سمیت تمام شعبوں کے لیے کیا گیا ہے۔اِس سے پہلے کہ ہم گیس کی قیمتوں میں اضافے پر بات کریں، مدنظر رہنا چاہیے کہ ایک روز قبل ہی وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے شرائط پر عمل درآمد تیزکر تے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کیا اور وفاقی کابینہ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اورسبسڈی ختم کرنے کا پلان منظور کیا تھا۔ آئی ایم ایف کے وفد کی واپسی کے فوری بعد وفاقی وزیرخزانہ سینیٹرمحمداسحاق ڈارنے 170ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات کویقینی بنایا جائے گا کہ اس کا بوجھ براہ راست عام آدمی پرنہ پڑے۔ 170ارب روپے کے ٹیکس لگانے کے لیے منی فنانس بل متعارف کرانے کا عندیہ دیا اور ذرائع ابلاغ کے مطابق سینیٹ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ختم ہونے کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری ہوگا،ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی شرح میں ردوبدل آرڈیننس کے ذریعے ہوگا،سینیٹ اجلاس کی وجہ سے ابھی آرڈیننس جاری نہیں ہوسکتااور صدارتی آرڈیننس چار ماہ کے لیے نافذ العمل ہوگا البتہ قرارداد کے ذریعے قومی اسمبلی اس میں مزید ایک سو بیس دن توسیع کی منظوری دے سکتی ہے۔ قبل ازیں وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک سینیٹ میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت گیس غیر پائیدار نرخوں پر فروخت ہو رہی ہے اور اُن کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے فنڈز کی اگلی قسط کے اجراء کے لیے مذاکرات جاری تھے اور پاکستان کے پاور ریگولیٹر نے پہلے ہی سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو کابینہ کی منظوری سے مشروط نرخوں میں 75 فیصد تک اضافے کی اجازت دے دی تھی۔ بجلی کے بعد گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافہ بلاشبہ تمام صارفین کی کمر توڑ دے گا البتہ سب سے زیادہ برآمدی شعبہ متاثر ہوگا
کیونکہ یہ اضافہ صنعتوں کے لیے پیداواری لاگت میں اضافہ کرے گا جس کا اثر آخری صارف تک پہنچنے کا امکان ہے۔صنعتیں مہنگی گیس خرید کر جو مصنوعات تیار کریں گی یقیناً اُن کی قیمت بھی نئی اور زیادہ مقرر کی جائے گی اِسی طرح بین الاقوامی منڈی میں کون سا خریدار ہوگا جو دوسرے ممالک کی سستی مصنوعات کو چھوڑ کر ہماری مہنگی ترین مصنوعات کو خریدے گا،بہرکیف اگر پاکستان رعایتی نرخوں پر سوویت یونین سے گیس کی خریداری میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ملک سالانہ بنیادوں پر 2 بلین ڈالر کی بچت کر سکے گا لیکن بصورت دیگر کیا ہوگا؟ گیس کے تمام صارفین خواہ وہ گھریلو ہوں یا صنعتی، سبھی شدید متاثر ہوں گے اور برآمدات پر اِس اضافے کے نمایاں اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ صنعتیں بجلی اور گیس استعمال کرتی ہیں اور یہ دونوں مصنوعات ہم نے مہنگی ترین کردی ہیں ایک طرف گھریلو صارفین کی چیخیں نکلی ہوئی ہیں تو دوسری طرف صنعتی صارفین بھی تالا بندی پر مجبور ہوکر کاروبار سمیٹ رہے ہیں، ذرائع ابلاغ اور کاروباری شعبوں کی انجمنوں کادعویٰ ہے کہ فیصل آباد میں بہت بڑی تعداد میں صنعتی یونٹ بند اور اِن یونٹس کی لیبر بے روزگار ہوچکی ہے، ظاہر ہے کہ صنعت کار مہنگے ایندھن سے کیونکر مصنوعات تیار کریں گے، پھر جن کے پاس درآمدی آرڈر تھے وہ بھی نقصان برداشت کررہے ہیں، نہیں معلوم کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ 170ارب روپے کے منی بجٹ کا حصہ ہے یا اُس سے مختلف، لیکن بخوبی تصور کیا جاسکتا ہے کہ مہنگائی جو پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے مزید کہاں تک جانے والی ہے جو یقیناً نیا ریکارڈ ہوگااور وزیراعظم پاکستان حال ہی میں کہہ چکے ہیں کہ ملک کے پاس آئی ایم ایف کے نویں جائزے کو ختم کرنے کے لیے فنڈ کے مطالبات کے سامنے جھکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھااور اسے دردناک حقیقت قرار دیا تھا اور یہ بھی حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اِس بار آئی ایم ایف ملک کو مزید چھوٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہے حالانکہ موجودہ اقتصادی ٹیم نے کابینہ اور سٹیک ہولڈرز کی توجہ ان اقدامات پر مرکوز کرائی ہے جن کے سنگین سماجی و اقتصادی اثرات ہو سکتے ہیں اور انہیں فوری طور پر واپس لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ اِن کے ہر روز معیشت یعنی غریبوں پر امیروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ ہم ایک بار پھر اپنی بات دھرانا چاہتے ہیں کہ متذکرہ تمام مشکل اور سخت ترین فیصلے اُس حکومت کے دور میں کیے جارہے ہیں جو سابق حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری کرنے پر مورودالزام ٹھہراتی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button