Editorial

آئی ایم ایف سے ڈیل کیلئے پیشگی اقدامات

 

حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کے تحت پیشگی اقدامات پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ جن اقدامات کا قومی ذرائع ابلاغ نے خلاصہ پیش کیا ہے وہ تمام اقدامات جان بلب لانے والے اور پیشگی ہیں لیکن اِن پیشگی اقدامات کے بعد آئی ایم ایف کیا تقاضے کرتا ہے اور اُن کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کس سطح پر پہنچتی ہے اِس کا تصور ہی سوہانِ روح ہے مگر کارسازوں کادعویٰ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا مگر قربانی کی اہمیت کو سمجھئے اور دیجئے کیونکہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ قربانیاں مانگ رہا ہے لہٰذا عوام کو قربانی دینا ہوگی تبھی اشرافیہ کی دال روٹی چلے گی۔ چونکہ ہم کئی دہائیوں سے درآمدات کے عادی ہیں لہٰذا دنیا کے کونے کونے سے اپنی ضرورت کی اشیا منگوانے کے لیے قربانی تو دینا پڑے گی بھلے وہ اشیا عوام کے لیے نہ ہوں مگر اشرافیہ کے لیے ہوں۔ ہمارے معیشت دان معاشی حکمت عملی ہمیشہ اشرافیہ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیتے ہیں کیونکہ مقامی پیداوار اُن کے شایان شان اور رُتبے کے مطابق نہیں ہوتی بہرکیف معیشت دان یہ کام بخوبی ایمانداری سے کرتے ہیں مگر جب معاشی حالات بگاڑ کی طرف جاتے ہیں تو عوام سے قربانی لے کر پھر وقت گذاری کرلی جاتی ہے جبھی ہر پانچ سال کے بعد جاری کھاتوں کا خسارہ اور مہنگائی کا طوفان آتاہے،ہمارے یہاں معاشی پلان کا کبھی تصور نہیں رہا لہٰذا اِس شعبے کو اہمیت بھی نہیں دی گئی، جن اقوام نے سوچ و بچار کے بعد معیشت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی آج اُن کے عوام دنیا میں ہی اُن آسائشوں سے مستفید ہورہے ہیں جن کا ہم تیسری دنیا کے ممالک میں تصوربھی نہیں۔ فرق خطے یا عوام کا نہیں بلکہ قیادت کی سوچ کا ہے، لہٰذا انہوں نے اپنی سوچ کے ساتھ اپنے ملک اور قوم کو عزت و شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا ہم اپنے ویژن کے مطابق آئی ایم ایف سے قرضوں کے مرہون منت ہیں، ہم اپنے ملک و قوم کا سوچنا شروع کردیں تو کیوں آسانیاں پیدا نہ ہوں، جس قوم کے بیٹے وطن کے چپے چپے کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں وہ قیادت کی حب الوطنی دیکھ کر کیوں پیچھے ہٹیں گے؟ لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے، مریض کا مرض بھی خفیہ نہیں اور اِس کا علاج بھی، فقط مقصد علاج نہیں بلکہ مریض کے ساتھ گریہ زاری کی رسم نبھائی جارہی ہے۔ معیشت، دہشت گردی، مہنگائی، تعلیم اور صحت قطعی آسمان سے اُتری آزمائشیں نہیں ہیں جن کے لیے دعا کی ضرورت ہو، یہ مسائل ہماری کوتاہ اندیشوں کی وجہ سے بحرانوں کی شکل اختیار کیے ہیںاور ان کی جانب بروقت متوجہ نہ ہونا اِن کو عامۃ الناس کے لیے سوہان روح بناچکا ہے۔ ہماری رہنمائوں کا جذباتی رویہ اور باتیں موجودہ بحرانوں کو دور کرنے کے لیے ناکافی بلکہ ناکارہ ہیںاور موجودہ معاشی حالات یہی ثابت کرتے ہیں کہ ماضی کی جذباتی تقاریراور دعوئوں کے باوجود بحران شدت کے ساتھ گہرے سے گہرے ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہم اِن کی جانب متوجہ ہونے کی بجائے اُن کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں جن کے ہم ماہر ہیں اسی لیے ہر تہوار کی طرح آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بھی ایک تہوار معلوم ہوتا ہے جو ہر حکومت کے دور میں آتا ہے جب معیشت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوتی ہیں۔ معاشی تباہی اور دوسرے بحرانوں کے ذمہ داران ہمیشہ تسلیم کرنے سے عاری رہتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کو نئے مسائل کی دلدل میں دھکیل کررخصت ہوئے اور بحرانوں کو مزید گہرا کیا،لہٰذا موجودہ تباہی ماضی کی غلطیوں کو بیان کررہی ہے کہ وطن عزیز کو بہت سے محاذوں کا سامنا ہے ، معیشت کوہی لے لیجئے، بدترین تباہی جس میں فیصلہ سازاور منتخب ملک کو یہاں تک لے آئے ہیں کہ عوام ہمیشہ کی طرح ان کے فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، مسائل اتنے ہیں کہ اُن کا شمار ممکن نہیں مگر اِن سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ عوام کی صلاحیتوں پر انحصار کرنے کی بجائے غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے کی حکمت عملی اب زیادہ دیر تک موثر ہوتی نظر نہیں آئے گی کیونکہ حالیہ داخلی اور خارجی چیلنجز اب باتوں اورجذباتی شعلہ بیانی کرنے سے دور ہونے والے نہیں۔ گذشتہ برس آنے والے سیلاب نے عالمی برادری کے سامنے ہمارے بھرم سے پردہ اٹھادیا، کہاں کہاں ہم نے ہاتھ نہیں پھیلائے اورکیا کیا جواز پیش نہ کیے پس جو کچھ بھی اِدھر اُدھر سے ملا وہ ضروریات کے لیے ناکافی تھا اب ہم آئی ایم ایف کے در پر کھڑے ہیں اور وہ لکیریں نکلوارہا ہے، ہم لکیریں نکال رہے ہیں کیونکہ اِس کے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں ، موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہم جن مسائل میں گھرتے جارہے ہیں ہمیں قبل ازوقت اِس کا ادراک بھی کرنا ہے اور اگر کہیں ایسی سوچ موجود ہے کہ ہر بار ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس کو آگے کرکے عالمی برادری کو امداد کے لیے متوجہ کرلیں گے تو شاید ایسا بہت دیر تک جاری رہنا ممکن نہیںاور ہمیں بالآخر اپنے حقیقی کام اور مقصد کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا۔ ملک و قوم کی بقا کی جنگ ایسی لاتعلقی اور عارضی حکمت عملی سے قطعی نہیں جیتی جاسکتی اِس کے لیے قیادت اور اشرافیہ کو اپنی سوچ کو بالآخر بدلنا پڑے گا کیونکہ بقا کی جنگ سیاسی سطح سے شروع ہوئی تبھی عوام اِس میں شامل ہوں گے، قربانی دینے کے دعویداروں کو اِس جنگ میں عملی طور پر عوام کی نمائندگی کرنا پڑے گی اور مطلوبہ قربانیاں دینے کے لیے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، وگرنہ زبانی جمع خرچ اور ماضی کی حکمت عملی کو جاری رکھنے سے کچھ بھی ٹھیک ہونے والا نہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض کی جبھی ضرورت پیش آتی ہے جب غلطیوں کا تسلسل بحران کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، ریاست کے تمام ستونوں کو اِس معاملے پر اپنی اپنی ذمہ داری انتہائی دیانت داری اور احسن طریقے سے ادا کرنی چاہیے کیونکہ اِن نازک حالات میں سبھی کا اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے واقف اور متوجہ ہونا ضروری ہے لہٰذا مستقبل کے لیے ایسا راستہ ترتیب دیا جائے جو معیشت کو غیر ملکی قرض داروں اور ملکی اشرافیہ کے لیے کام کرنے کی بجائے لوگوں کے لیے کام کرے کیونکہ معاشی بحران ملک و قوم کو اس قدر نازک سطح پر لے آیا ہے کہ موجودہ سیاسی انتظامات میں ہمارے پاس آئی ایم ایف کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button