ColumnImtiaz Ahmad Shad

تعلیم ،توجہ طلب مسئلہ ۔۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

کوئی بھی معاشرہ تعلیم کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔انسان اورجانور کے درمیان بنیادی فرق سوچ کا ہے اوراس سوچ غوروفکر کے عمل کو مؤثر بنانے میں تعلیم کا بنیادی اورکلیدی کردار ہے۔تعلیم کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے یہ تفریق اہمیت کی حامل ہے کہ کسی معاشرے میں وہ عمل جس کے ذریعے اس معاشرے کے افراد کو ذہنی جسمانی اورجذباتی طور پر تربیت دی جاتی ہے، تعلیم کہلاتا ہے۔تعلیم کے عمل سے افراد میں ایک خاص طرح سے سوچنے اورعمل کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے اوراس کے ساتھ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں کامیاب زندگی گزارنے میں مدد حاصل ہوتی ہے۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم وتربیت میں معراج پاکر دین ودنیا میں سربلندی اورترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اورتعلیم سے دور ہوئے غلام بنا لیے گئے یاپھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقع سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس کی مثال ان ممالک اوراقوام سے لی جاسکتی ہے جنہوں نے علم اورتعلیم کو اپنایا اورآج پوری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیںاورہر لحاظ سے دنیا ان کے دروازے پر تعلیم کی بھیگ مانگنے کیلئے لمبی قطاریں بنا کر کھڑی ہے بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ تعلیم یافتہ اقوام ہی آج قدرت کے رازوں سے پردہ اٹھارہی ہیں جن کے بارے میں قرآن نے پیغام دیا کہ (مفہوم)’’اس کائنات کو مسخر کرو ، اس میں تمہارے لیے خزانے ہیں‘‘۔پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا 1973 کے آئین میں آرٹیکل 33 یقین دلاتا ہے کہ پاکستان میں نظامِ تعلیم قرآن وسنت سے ہم آہنگ ہوگااورساتھ ہی ساتھ یہی آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں خصوصاً پسماندہ علاقوں میں تعلیم کو کم سے کم وقت میں پہنچایاجائے گا۔حصولِ تعلیم کے فرض کیے جانے پر کوئی اختلاف نہیںہے ۔ قرآن مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر بالواسطہ یا بلاواسطہ حصولِ تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے ۔علم کی فرضیت کا براہِ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے ۔ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’حصولِ تعلیم مسلمانوں(بلاتفریق مردوزن) پر فرض ہے۔اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن وسنت کے احکامات اورآئین پاکستان کی روشنی کے باوجود ہم نے تعلیم کو نہ صرف نظرانداز کررکھا ہے بلکہ مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا علم اورتعلیم کی بنیادپر ترقی کررہی ہے اورہم تعلیم کی مد میں رکھی گئی رقم میں سے نکال کر دوسرے منصوبوں پر خرچ کررہے ہیں اور بجٹ میں تعلیم کی مد میں انتہائی قلیل بجٹ رکھنا بھی تعلیم سے ظلم کی انتہا ہے۔ہمارا تمام تعلیمی انفراسٹرکچر زنگ آلود ہوچکا ہے ۔ نصاب تعلیم سے لے کر اساتذہ اورتعلیمی اداروں تک سب کا سب نظام جدت سے عاری ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کے مقاصد کو وضع کریں
اوراصل مرض کی طرف متوجہ ہوں۔لارڈمیکالے کے مادہ پرستانہ اورسیکولرنظامِ تعلیم کی بجائے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو سامنے رکھ کر ہم ایسا نظامِ تعلیم وضع کریں جو ہمارے افراد اورمعاشرے کے درمیان پُل کا کام انجام دے سکے۔اس حقیقت سے آج پاکستان کا بچہ بچہ آگاہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی ادارے فیکٹریاں بن چکے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ پیسے کا لالچ اور حرص ہے ۔دوسری جانب تعلیمی ادارے ہی سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر ریاست اپنا فرض سمجھتے ہوئے مؤثر تعلیمی انتظام کرتی تو یہ لوگ آج قومی دھارے سے نہ نکلتے اوررہی سہی کسر ملک میں موجود عناصر نے پوری کررکھی ہے جو اپنی سرداری ، چودھراہٹ اورجاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی جوہ سے اپنے اثرورسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنتے ہیں اوربدقسمتی سے ان کی اکثریت قانون ساز اداروں میں براجمان ہے ۔ جب تک ان عناصر کا قلع قمع نہیں کیا جاتا ملک میں تعلیم عام نہیں ہوسکتی اورملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہماری تعلیمی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کررہی ہے جو کافی مشہور ہورہی ہے ۔ اس تصویر میں ایک خیمہ دکھایا گیا ہے جس میں ایک طرف سے چند طالب علم بستہ اٹھائے داخل ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اُٹھائے باہر نکل رہے ہیں اورخیمے کے اوپر لکھا ہے ’’پاکستان کا نظام تعلیم‘‘۔کسی بھی نظام کو بنانے اوبگاڑنے میں شاید اقلیت کا کردارہوتا ہے مگر اسے بربادکرنے میں اکثریت کا عمل دخل یقینی ہوتا ہے لیکن اس کارِ شرمیں علماء سے لے کر اساتذہ کرام، اہلِ قلم اورتمام حکومتوں نے حصہ بقدرِ حبثہ لیا ہے۔علماء نے منبرومحراب کو تعلیم وتربیت کا ذریعہ بنانے کی بجائے فرقوں اورفقہوں کو
ترجیح دیا جبکہ اساتذہ کرام نے تعلیمی اداروں میں خلوصِ نیت سے کام کرنے کی بجائے ذاتی ٹیوشن سنٹر قائم کیے اوراہلِ قلم نے تو تعلیم سے بیزاری کی انتہا کردی ۔سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی تھی مگر اس نے بھی آئین میں تعلیم کی اہمیت کو بیان کرکے اپنی ذمہ داری کو پورا جانا۔اس وقت پاکستان میں نجی اورسرکاری تعلیمی ادارے کسی حدتک تعلیم کا کام کررہے ہیں مگر سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار پر تو خیر دعا ہی کی جاسکتی ہے مگر نجی تعلیمی ادارے جو کہ اکثریت کاروباری فکر کے افراد چلا رہی ہیں، تعلیم کو اتنا مہنگا کر چکے ہے کہ لوگوں کی پہنچ سے تعلیم کو دور کردیا ہے۔حکومتی کاوشوں(جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں)کے باوجودلوگ سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کوبھیجنے کیلئے راضی نہیں ۔ تمام طبقہ فکر کی تعلیمی نااہلی کے ساتھ ساتھ عوام بھی مکمل ذمہ دار ہے جو کہ تعلیم پر خرچ کرتے ہوئے ہچکچاتی ہے۔بدقسمتی سے اس قوم کو علم وحکمت کی کیا قدر جو مہنگا جوتالینے میں فخر اورسستی کتاب خریدنے میں دقت محسوس کرے۔پھر یہ نتیجہ کیوں نہ اخذ کیا جائے کہ اس قوم کو کتابوں سے زیادہ جوتوں کی ضرورت ہے۔خدارا میرے وطنِ عزیز کے باسیو تعلیم پر توجہ دو اوراپنی آئندہ نسل کو قدرومنزلت کا مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نسلیں بھی اس طرح اغیار کی غلامی میں زندگی بسر کریں۔ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کی اولادیں دیار غیر سے تھرڈ کلاس ڈگریاں بھی لے کر آجائیں تب بھی وہ ہمارے حاکم بن جاتے ہیں اور ہمارے ملک کا عام آدمی تعلیمی میدان میں دنیا بھی ٹاپ کر لے پھر بھی وہ چند ٹکوں پر ملازمت کرتا دکھائی دیتا ہے۔جب تک من حیث القوم فیصلہ نہیں کرتے تب تک کسی صورت بھی ہم اپنا میعار تعلم درست نہیں کرسکتے۔تعلیم کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کو نوکری،روزی روٹی کے ذریعے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔حالانکہ تعلیم کسی بھی قوم کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے کافی اہم ہوتی ہے۔ تعلیم ایک فرد کو کام کرنے اور زندگی میں سبقت حاصل کرنے کیلئے بہتر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ ایک صحیح راستہ دیکھا کر انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے اور یوں وہ اعلیٰ خود اعتمادی حاصل کرتا ہیں اور خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button