Editorial

پاکستان سے ڈالرز کی افغانستان سمگلنگ

 

دنیا کے سب سے زیادہ نامور معاشی جریدے بلوم برگ نے پاکستان سے ڈالرز کی سمگلنگ کو افغانستان میں طالبان حکومت کی لائف لائن قرار دیا ہے۔ عالمی جریدے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تاجر اور دیگر ذرائع سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر پاکستان سے افغانستان جارہے ہیں۔ افغانستان کی یومیہ ڈالر ضرورت 1 سے ڈیڑھ کروڑ ہے۔ اقوام متحدہ افغانستان کو ہفتہ وار 4 کروڑ ڈالر امداد دیتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے علاوہ ڈالر سمگلرز بھی افغان کرنسی خریدے رہے ہیں، جس سے افغانی روپے کی قدر رواں سال 5 اعشاریہ 6 فیصد بڑھی ہےاورطلب بڑھنے سے افغانی کرنسی دنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے۔ افغانستان میں پاکستانی روپے پر پابندی لگانے سے بارڈر تجارت ڈالر میں ہورہی ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت نے افغانستان ڈالر لانے پر پابندی ختم کردی ہے۔ معیشت سے متعلق بلوم برگ کی رپورٹس کو عالمی سطح پر تسلیم کیاجاتا ہے کیونکہ اِن کے ماہرین کی وسیع ٹیم کم و بیش دنیا بھر کی معیشتوں پر گہری نظر رکھتی ہے اور ویسے بھی بلوم برگ پر ہمارے تمام حزب یعنی حزب اقتدار اور حزب اختلاف پورا یقین رکھتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ رپورٹ اُن کے حق میں ہو۔ بہرکیف بلوم برگ کی زیر بحث رپورٹ حیران کن ہے کیونکہ اِس میں کئی پاکستانی اداروں کے دعوئوں کی نفی کی گئی ہے۔ بلوم برگ نے بتایا ہے کہ پاک افغان بارڈر پر سارا لین دین ڈالرز میں ہورہا ہے جو ایف بی آر کے دعویٰ کی نفی ہے جس میں پراعتماد طریقے سے کہاگیا تھا کہ وہاں لین دین پاکستانی روپے میں ہورہا ہے لہٰذا بلوم برگ کی رپورٹ ہمارے حکام کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے جو ہماری طرح اِسی مغالطے میں مبتلا تھے کہ وہاں پاکستانی کرنسی میں لین دین ہورہا ہے۔ چند روز قبل ہی پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان نے بتایا تھا کہ پاکستان کی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں افغانستان میں ڈالر کی قیمت 20 روپے زیادہ ہے ، اسی لیے بہت بڑی مقدار میں ڈالر سرحد پار جا رہا ہے مگر حکومت طے کرلے کہ ہر صورت میں ڈالر کا ریٹ نیچے لانا ہے تو کوئی طاقت ریٹ نیچے لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ معاشی ماہرین کابھی یہی دعویٰ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ڈالر کی افغانستان سمگلنگ ہے، چونکہ افغانستان تاحال پابندیوں کی زد میں ہے اور وہاں ڈالر کا کوئی اور ذریعہ نہیں جبکہ ان کی تجارت مکمل طور پر ڈالر سے ہے لہٰذا ایک طرف تو پاکستان میں لوگ ڈالر زخیرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف افغانستان سمگل کرکے خوب کمائی کررہے ہیں۔ افغانستان پاکستان کو کوئلہ، ٹیکسٹائل، پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خوردنی درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان سے جانے والی اشیا میں لکڑی، دوائیاں اور بعض اشیائے خوردنی شامل ہیں اور اگر دونوں ممالک کے درمیان سمگلنگ کے کاروبار کی بات کی جائے تو شاید اِس کا حجم سرکاری سطح پر ہونے والے ٹریڈ سے کہیں زیادہ ہو۔ پہلے تو گندم، چینی اور گھی سمیت متعدد اشیائے ضروریہ افغانستان سمگل کرکے خوب کمائی کی جاتی تھی مگر اب ڈالر ز بھی سمگل ہونے والی اشیا کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں، بھلے سرکاری ادارے افغانستان میں ڈالرز کی سمگلنگ کی جتنی بھی تردید کریں لیکن بلوم برگ کی اِس رپورٹ کو جھٹلانے کے لیے ناکافی ہوں گے کیونکہ ہمارے مقامی ذرائع ابلاغ نے جتنی بار اِس اہم مسئلے پر حکام کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے، جواباً اقدامات کرنے کی بجائے تردید سے اکتفا کیاگیا ہے لہٰذا اِس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک و قوم سنگین بحران سے دوچار ہوتے ہیں مگر مافیاز دو نوں ہاتھوں سے سمگلنگ کے ذریعے کمائی کررہا ہوتا ہے ، ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کے سربراہان کے لیے بلوم برگ کی رپورٹ انتہائی قابل تشویش ہونی چاہیے ، مگر تشویش کے ساتھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button