ColumnNasir Sherazi

زلزلہ و طوفان ِ نوح کی ضرورت .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ترکیہ اور شام میں زلزلے کے نتیجے میں قریباً آٹھ ہزار افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ تعداد اِس سے دوگنا ہوسکتی ہے۔ لاتعداد افراد ابھی ملبے تلے دبے ہیں جبکہ زلزلے سے متاثر ہونے والے اڑھائی کروڑ افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ماہرین ارضیات کے مطابق گذشتہ ایک سو برس میں آنے والا یہ شدید ترین زلزلہ ہے جس کے نتیجے میں دو ملکوں کے کئی شہروں میں بلندوبالا عمارتیں زمین بوس ہوگئی ہیں، جدھر نظر اٹھتی ہے تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، قیامت کا منظر ہے، کوئی کسی کا پرسان حال نہیں، دنیا کے پچاس سے زائد ممالک نے متاثر ملکوں کو امدادکی پیشکش کی ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، فوری طور پر دو جہاز امدادی سامان لے کر پاکستان سے ترکیہ اور شام پہنچے ہیں، پاکستان آرمی نے جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیلڈ ہسپتال قائم کررہا ہے، زلزلہ متاثرین کی مشکلات میں سرد موسم نے اضافہ کردیا ہے۔ مختلف ممالک کی اب تک پہنچنے والی امدادی ٹیمیں ان کی ہر ممکن مدد کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں جنہیں ایک طرف ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنا ہے تاکہ ان کی جان بچائی جاسکے تو دوسری طرف زخمیوں کو ایسی جگہوں پر پہنچانا ہے جہاں انہیں علاج کی سہولت میسر آسکے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی نگہداشت ان کے لیے رہائش اور اشیائے خورونوش مہیا کرنا بھی اہم ہے۔ زلزلہ متاثرین ابھی تک شاک کی کیفیت میں ہیں، زلزلہ دن کی روشنی میں آیا، دیکھتے ہی دیکھتے بلندو بالا عمارتیں چند سیکنڈ کے اندر زمین پر آرہیں۔
یہ زلزلہ اِس سے سو گنا زیادہ تبایہ لایا ہے جو کبھی پاکستان میں آئی تھی اس سے قبل 1935 میں ایک زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں کوئٹہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا لیکن یہ معاملہ صرف ایک شہر کا تھا، آج دو ملک اس کی زد میں ہیں وقت کے ساتھ انسان کا رہن سہن بدلا ہے، آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ رہائشی سہولتوں کی قیمتیں بھی کئی ہزار گنا بڑھ چکی ہیں، اب بلند عمارتیں اور چھوٹے گھر تعمیر کیے جاتے ہیں یوں کم رقبے میں زیادہ افراد مقیم ہوتے ہیں، قدرتی آفات اور بالخصوص زلزلے کے نتیجے میں زیادہ افراد اِس سے متاثر ہوتے ہیں وہ ملک جہاں زمین کم ہے انہوں نے کاروباری نکتہ نظر سے اِس رحجان کو جنم دیا جو ایسے ممالک تک جاپہنچا ہے جہاں زمین بہت زیادہ اور مکین کم ہیں لیکن اس کے باوجود لینڈ اور بلڈر مافیا اشتہار بازی کے زور پر لوگوں کو اپنی جانب راغب کرلیتا ہے، یوں وہ ہزار میٹر جگہ پر جہاں ایک خاندان کبھی رہا کرتا تھا وہاں کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کرکے ایک ہزار افراد کو چھت مہیا کرکے خوب خوب منافع کماتا ہے، کہنے کو یہ لوگ گھروں میں رہتے ہیں لیکن گھروں کے نام پر یہ ڈربے بنائے جارہے ہیں جہاں جانور، چرند و پرند تو شاید خوش رہیں لیکن یہ انسانوں کے رہنے کے لیے کسی بھی اعتبار سے بہت اچھے قرار نہیں دیئے جاسکتے۔
وہ ممالک جہاں شدید گرمی پڑتی ہے ایسے گھر موسم گرما میں تنور بن جاتے ہیں، گرم موسم اور گرم گھر ان مکینوں کے مزاج پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں، یہ گھر سورج کی روشنی اور تازہ ہوا سے فیض حاصل نہیں کرسکتے لہٰذا ان میں گھٹن زیادہ ہوتی ہے، بجلی کا استعمال اور خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ ممالک جنہیں زمین کی قلت کا سامنا نہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ بلندعمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کریں۔
پاکستان کی آبادی قریباً 23 کروڑ ہوچکی لیکن آج بھی نصف پاکستان آبادی سے خالی ہے، آبادی کا ارتکاز دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ کی طرف ہے، بلوچستان رقبے میں سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے کم آباد صوبہ ہے، جو بلڈر مافیا بلند عمارتیں بناکر افراد کو لوٹ رہا ہے اس نے پاکستان کے دو صوبوں اور دارالحکومت کو جکڑ رکھا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس مافیا سے نئے شہر بسانے کا کام لے تاکہ ان کی ہوس زر بھی پوری ہوتی رہے، افرادی قوت کو کام کاج ملے اور شہریوں کو ڈربوں میں بند ہوکر جانوروں کی سی زندگی نہ گذارنا پڑے۔
نصف صدی قبل گائوں کے علاوہ شہروں کے باسی کھلے اور ایک منزلہ گھر میں رہتے تھے، گھر کے ایک کونے میں سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں اور ایک دو بھیڑ بکریاں بھی پالی جاتی تھیں جو کنبے کی روزمرہ ضروریات پوری کرتی تھیں، ماڈرن ازم اورترقی یافتہ کہلانے کے آرزو مندوں نے ترقی کم کی ہے اپنے لیے مسائل میں اضافہ زیادہ کیا ہے۔ ماضی کی طرز رہائش میں ہر شخص کو آسمان دیکھنے اورکھلی تازہ ہوا میں رات کو آرام کرنا میسر تھا وہ چند گھنٹوں کی نیند کے بعد صبح بیدار ہوتا تو ایک مرتبہ پھر تروتازہ ہوتا اس کے کام کرنے کی استعداد بارہ گھنٹے سے زیادہ تھی آج ایئر کنڈیشنڈ بند کمروں میں رہنے والوں کے چہروں پر مہنگی ترین کریمیں استعمال کرنے کے بعد بھی وہ تازگی و شگفتگی نظر نہیں آتی جو اِس خطے میں بسنے والوں کے لیے قدرت کا خوب صورت تحفہ ہے اب ہر طرف چہرے زرد اور پچکے ہوئے نظر آتے ہیں ملاوٹ شدہ خوراکوں نے قد آوروں کو پستہ قد قوم بنادیا، مردانہ حسن ہو یا نسوانی، دونوں عنقا، آس پاس چلتےپھرتے ڈھانچے نظر آتے ہیں ان پر ایک نظر پڑ بھی جائے تو دوسری مرتبہ اِدھر نہیں اُٹھتی، ہر شخص مرض نظر ہی نہیں آتا حقیقی طور پر ایسا ہی ہے، کوئی جسمانی مریض کوئی ذہنی مریض ہے، رہی سہی کسر اب فیشن ڈیزائنرز نے پوری کردی ہے انہوں نے عورت کے لیے کم ترین کپڑے فیشن قرار دیئے ہیں تاکہ ان کا اپنا منافع زیادہ ہو جبکہ وہ مردوں کو پتلونوں کے نام پر چوڑی دار پاجامے پہنانے میں کامیاب رہے ہیں، ساڑھی جو کبھی شرفا کا لباس تھا پہلے اس کا بلاوز آدھی آستین کا ہوا پھر آستین غائب ہی ہوگئی اور اب بلاوز مکمل طور پر غائب ہوچکا ہے، قوم ان فیشن ڈیزائنرز کے ہاتھوں لٹ رہی ہے اور خوش ہے چین جب تک ہر معاملے میں خود کفیل نہ ہوا اس کے مردانہ اور زنانہ لباس کئی دہائیوں تک نہ بدلے، ان کی قمیص کبھی لمبی ہوئی نہ چھوٹی، حتیٰ کہ لباس کے بھی چند ہی مخصوص رنگ تھے، آج وہ دنیا کی بڑی طاقت ہیں، امریکہ جیسا ملک ان کا مقروض ہے ایک ہم ہیں جو دو مرتبہ کپڑا پہننے کے بعد پھر نہیں پہنتے ہماری گاڑیاں ہمارے گھر ہمارے موبائل فون اور ہمارے نخرے دیکھو اور ہمارے سر چڑھے ہوئے ہزاروں ارب ڈالر کے قرضے دیکھو، حکمران ہوں یا عوام، سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
زلزلہ، ترکیہ و شام نہیں یہاں آنا چاہیے تھا اگر زلزلہ نہیں تو پھر طوفان نوح، اس سے کم پر کوئی اپنا چال چلن درست کرنے پر تیار نہیں، صبح شام ہم دعوت عذاب الٰہی دیتے ہیں، اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کو تیار نہیں ہمارا انجام بخیر نہیں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے ترکیہ اور شام کے باسیوں کی مشکلیں آسان فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button