Editorial

ترکیہ اور شام میں ہولناک زلزلہ

 

جنوبی ترکیہ اور شمال مغربی شام میں 7.8شدت سے آنے والے ہولناک زلزلے کے نتیجے میں اموات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے لیکن امریکی جیولوجیکل سروے رپورٹ کے مطابق ہلاکتیں 8گنا زیادہ ہوسکتی ہیں۔ قبرص، یونان، اردن، لبنان، جارجیا، آرمینیا اور اسرائیل میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔ ترکیہ کی صدسالہ تاریخ میں اِس زلزلے کو سب سے بڑا سانحہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ہزاروں اموات کے ساتھ ہزاروں افراد زخمی بھی ہیں اور لاپتا افراد کی تعداد بھی پریشان کن ہے۔ ترکیہ کے ذرائع ابلاغ کے مطابق کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں تین ہزار سے زائد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں، امریکہ، روس، پاکستان سمیت 45 ممالک نے امداد کی پیشکش کی ہے ۔وزیر اعظم شہبازشریف انقرہ جائیں گے ۔ نگران حکومت پنجاب نے بھی ریسکیو ٹیم امدادی سرگرمیوں کے لیے ترکیہ روانہ کردی ہے، ترکیہ کے برعکس شام میں جانی و مالی نقصان قدرے کم ہوا ہے مگر پھر بھی جانی نقصان سے بڑھ کر کوئی نقصان نہیں ہوسکتا۔ ترکیہ میں آنے والے زلزلے نے اکتوبر 2005ء میں پاکستان میں آنے والے ملکی تاریخ کے ہولناک زلزلہ کی یاد تازہ کردی ہے،جب آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں آنے والے زلزلہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوئے گئے لہٰذا اِس زلزلے کو عظیم قومی سانحہ کہا جاتا ہے کیونکہ اِس زلزلہ سے پہلے ایسی تباہی کبھی پہلے نہیں دیکھی گئی تھی لہٰذا ہر سال وہ دن درد ناک واقعات اور مناظر کو آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ ترکیہ میں جانی نقصان کی شدت ملک شام سے کہیں زیادہ ہے اور تاحال اموات میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ جوں جوں امدادی ٹیمیں زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے ملبے سے لوگوں کو نکالنے کا کام کررہی ہیں، توں توں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ، اگرچہ ترکیہ میں آنے والا حالیہ زلزلہ جانی و مالی نقصان کے باعث اِس وقت دنیا بھر میں موضوع بنا ہوا ہے لیکن آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں ہم ایک لاکھ سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کرچکے ہیں۔ زلزلہ ایسی قدرتی آفت ہے جس کا قبل ازوقت یعنی بروقت اندازہ نہیں لگایاجاسکتا، زلزلہ آنے سے قبل سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہوتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحات میں کیا سے کیا ہونے والا ہے، پاکستان میں زلزلہ آیا تو چند لمحے قبل تک کسی کو معلوم نہ تھا کہ کچھ دیر بعد کیا قیامت برپا ہونے والی ہے۔ اچانک زمین نے ہلنا شرو ع کیا تو شدت سے پہاڑ وں کے حصے ریزہ ریزہ ہو نا شروع ہو گئے۔ جگہ جگہ سے زمین پھٹ گئی،عمارتیں گر گئیں اور کئی عمارتیں تو اپنے مکینوں کی ہی قبریں بن گئیں، قیامت جیسی صورت حال تھی، ہر طرف زخمی اور اُن کی چیخ و پکار ، جاں بحق افراد کے اہل خانہ کی بے چینی اور آہ زاری ، پس ہر کوئی اپنے اُن پیاروں کے لیے تشویش میں مبتلا تھا جو اُن کی آنکھوں کے سامنے نہیں تھے۔ ہر طرف بربادی ہی بربادی تھی، سب کچھ تباہ و برباد ہوچکا تھااور اِس صورت حال میں واحد مقصد اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانا یا تلاش تھا، چند لمحات کے زلزلے نے لاکھوں خاندانوں کی زندگی بدل دی ، املاک زمین بوس اور اُس کے ملبے میں دبے اپنے لخت جگر اور عزیز و اقارب۔ سبھی ایک دوسرے سے متعلق لاعلم تھا کہ کون زندہ ہے یا نہیں۔ بلاشبہ ایسی تباہی و بربادی، جانی و مالی نقصان ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لہٰذا اِس خوف ناک تباہی نے جہاں انتظامی لحاظ سے ہماری کوتاہیوں کی نشاندہی کی وہیں پاکستانی قومی نے جذبہ ایثار کے تحت متاثرین کی بحالی کے لیے امداد کی صورت میں بے مثال قربانیاں دیں، یہاں تک کہ لوگوں نے اپنے کفن بھی اُن بے کفن ہم وطنوں کے لیے عطیہ کردیئے جن کی تدفین کے لیے کوئی اپنا باقی نہیں بچا تھا۔ اِس مشکل صورت حال میں عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیاگیا، غیر ملکی امدادی ٹیمیں بیرون ملک سے متاثرہ علاقوں میں پہنچیں اور لوگوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی، لیکن پاک فوج ، ہمارے فلاحی ادارے اور عامۃ الناس نے قبل ازیں ہم وطنوں کے لیے وہ سب کچھ کیا جس کا تصور ممکن ہوسکتا ہے۔ آج ترکیہ اور شام بھی شدید زلزلے سے متاثر ہیںجبکہ جنوبی ترکیہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے۔ پوری پاکستانی قوم ترکیہ اور شام کے متاثرہ مسلمانوں بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ اب عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ اِس صورتحال میں بلاتاخیر متاثرین کی مدد کے لیے وہاں پہنچیں کیونکہ قدرتی آفات کو روکنا تو کسی کے بس کی بات نہیں البتہ متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوکر انسانیت کا وقار تو بلند کیا جاسکتا ہے ، لہٰذا عالمی برادری کو ترکیہ اور شام سمیت دیگر ممالک جہاں جہاں اِس زلزلے سے جانی و مالی نقصان پہنچاہے، اِن کی مدد کے لیے کوئی کسر اُٹھانہیں رکھنی چاہیے کیونکہ قدرتی آفات اور حادثات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال کا سامنا کسی کو بھی کسی بھی وقت کرنا پڑسکتا ہے، لہٰذا امدادی کاموں اور متاثرین کی بحالی کے لیے سبھی کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button