ColumnNasir Sherazi

چھپکلی کا ڈر ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

چھپکلی کا ڈر

انگریزی اردو ہو یا پنجابی۔ ہر زبان کا اپنا حسن اورچاشنی ہوتی ہے۔ فی الحال پنجابی کی کہاوت کا لطف اٹھائیے۔ کہتے ہیں کسی کو گیدڑ کے فضلے کی ضرورت پیش آئی۔ وہ گیدڑ کے پاس گیا اور دست سوال دراز کیا۔ گیدڑ سوالی کا سوال سنتے ہی کہنے لگا کہ اتنی قیمتی چیز میں تمہیں مفت میں کیسے دے دوں۔ اتنا کہہ کر وہ ایک بلند پہاڑ پر چڑھ گیا تاکہ وہ اور اس کی قیمتی چیز محفوظ رہ سکے۔
چند روز قبل ذہین قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کو راوپنڈی میں گرفتار کیا گیا ان پر الزام تھا کہ انہوں نے آتش سیال سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہی کچھ کہا ہے جو چوہا سیراب ہونے کے بعد دم پہ کھڑا ہوکر کہتا ہے۔ چوہا تو صرف یہ پوچھتا ہے کہ بلی کہاں ہے لیکن گرفتار ہونے والی شخصیت نے اور بہت کچھ کہا جس کامطلب یہ نکالا گیاکہ وہ معصوم عوام کوبغاوت پر اکسارہے ہیں۔ انہوں نے ایک جائیداد پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ بات بات پر گیٹ نمبر چار سے تعلق کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ گرفتاری کے بعد ان کا ڈاکٹری ملاحظہ ہونا تھا جس میں یورین ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ مذکورہ شخصیت نے اپنا یورین دینے سے انکار کردیا۔ راولپنڈی میں ہونے والی گرفتاری ایک شخص کی گرفتاری نہیں بلکہ ایک پوری سیاسی جماعت کی گرفتاری ہے۔ پوری جماعت ایک شخص کے شانوں پہ کھڑی تھی۔ یوں سیاسی تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ پیچھے ایک بھانجا بچا ہے جو گذشتہ ماہ کسی اور مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد رہا ہوا ہے جس کے ذمے اب تایا جان کو بے ضرر اور مظلوم ثابت کرنے کیلئے پریس کانفرنسوں سے خطاب اور عدالت میں جتھے لیکر پہنچنے کی ذمہ داری کے علاوہ تھانے و جیل میں روٹی و سگار سوٹا پہنچانا بھی ہے۔
بڑھک باز سجنابرس ھا برس سے کہتے چلے آئے ہیں کہ ہتھکڑی سیاستدان کا زیور اور جیل اس کا سسرال ہوتا ہے۔ پس انہیں پہلے زیور پہنائے گئے پھر سسرال پہنچادیا گیا۔ انہوں نے گرفتاری بہت سٹائل سے پیش کی۔ سگار سلگایا۔ دھواں دار مکالمے ادا کیے۔ گرفتار کرنے کیلئے آنے والوں کو دھکے دیئے۔ پھر گلوگیر انداز میں کہا کہ مجھے گولی ماردو مگر مجھ پر شراب پینے یا رکھنے کا کیس نہ ڈالو۔ یاد رہے کہ ان کی حکومت کے زمانے میں کئی کئی کلو ہیروئن ڈالی گئی۔ جس شخص کے قبضے سے اتنی بڑی مقدار میں ہیروئن برآمد ہوجائے وہ پھر گھر واپس نہیں آتا سیدھا تختہ دار تک جاتا ہے۔ کوئی نیکی کام آجائے تو عمر قید سنادی جاتی ہے۔ انصافی حکومت میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ مسلم لیگی راہنما کی کار سے جب ہیروئن برآمد کیا گیا تو اس کی ویڈیو
بنائی گئی تھی جو ڈیڑھ برس کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی عدالت میں پیش نہ کی گئی اس حوالے سے ایک وزیر محترم نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں نے اللہ کو جان دینی ہے۔ہیروئن برآمدگی کا معاملہ صد فی صد درست ہے۔ ٹھیک چند ماہ بعد جب میڈیا کا پریشر بڑھا تو خان حکومت کے ایک ذمہ دار افسر اور سیاست دان نے آن ریکارڈ کہا کہ یہ ہیروئن ہم نے نہیں بلکہ ایک اور ذمہ دار ادارے نے ڈالی تھی۔ جس کا ہمیں علم ہی نہیں۔ اس ایک واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مخالفین پر سنگین مقدمات کس طرح بنائے جاتے ہیں اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے کیسی کیسی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔
جناب شیخ رشید نے بوقت گرفتاری پی رکھی تھی یا نہیں۔ ان کے پاس سے بوتل نکلی یا نہیں۔ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن شیخ صاحب بارسوخ شخصیت ہیں۔ تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ انہیں اس حوالے سے چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس فارمولے پر عمل کریں جس سے شراب شہد بن جاتی ہے۔
شیخ صاحب کے کچھ سسرالی رشتہ دار کراچی رہتے ہیں۔ انہوں نے میزبانی کی خواہش ظاہر کی ہے جبکہ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ میں دور کے سسرال نہیں جائوں گا کیونکہ جو لطف راولپنڈی میں ہتھکڑی کی چھناچھن کرنے میں ہے وہ کراچی کہاں۔ اپنا شہر اپنا حلقہ انتخاب۔ یہاں انہیں چھینک بھی آئے گی تو سو چاہنے والے اکٹھے ہوجائیں گے۔ کراچی میں یہ سیاسی موج میلے نہ ہوسکیں گے۔
ان کی گرفتاری کے بطن سے ایک اور بھی پیغام سامنے آتا ہے کہ انہیں گیٹ نمبر چار سے طلاق ہوچکی ہے۔ وہ رجوع کیلئے خاصے ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن ان پر واضح کردیا گیا ہے کہ اب بنا حلالہ کچھ ممکن نہیں۔ حلالے کیلئے کسی اور شخص سے نکاح ضروری ہوتا ہے بالکل اسی طرح سیاسی حلالے کیلئے بھی ایک سیاسی شخصیت کی ضرورت ہے۔ عین ممکن ہے اس کارخیر کیلئے ان کے دیرینہ سیاسی مخالف حنیف عباسی کا نام نکلے یعنی اگلے انتخاب میں وہ اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوں اور جناب شیخ صاحب اس ٹرم میں اپوزیشن بنچوں پر نظر آئیں۔ وہ جہاں بھی ہوں گے کوشش جاری رکھیں گے کہ سیاسی کھڑاک جاری رہے لیکن انہیں جان لینا چاہیے وقت بدل چکا ہے نئے ہیرو نئے ولن مارکیٹ میں آچکے ہیں اب ان کی پرانی فلمیں کون کب تک دیکھے گا۔
بتانے والے بتاتے ہیں انہیں اپنی گرفتاری کے دکھ سے زیادہ سر سے چادر کھینچے جانے کا قلق ہے۔ انہیں آج تک کسی نے برہنہ سر کبھی نہیں دیکھا لیکن اس موقعے پر ان کے ظالم مخالفین نے ان کی متعدد تصویریں اتاریں بعد ازاں چادر انہیں لوٹا دی گئی۔
خواتین میں سر پر دوپٹے یا چادر کا رواج ختم ہو رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی رقم خرچ کرکے سر کا سنگھار کرایا جاتا ہے جس میں سر کو رنگنا اور ہیر سٹائل بنوانا شامل ہے جس کی نمائش ضروری سمجھی جاتی ہے دوپٹہ یا چادر اوڑھنے سے ہزاروں روپے پر پانی پھر جاتا ہے اس رواج کے باوجود کچھ سمجھ دار مرد سر ڈھانپنے کو ترجیح دیتے ہیں یوں وہ سردی و گرمی دونوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
سردی کی شدت کم ہوتے ہی چیئرمین تحریک انصاف نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو ان کی دیرینہ خواہش ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جیل جانے کے بعد سیاسی شخصیت کی مقبولیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ ماضی میں چند روز کیلئے جیل گئے تھے لیکن وہ پک نک تھی۔ جیل تو وہ ہوتی ہے جو کسی جرم میں سزا سنائے جانے کے بعد کاٹی جائے۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے۔ بعض مقدمات کا فیصلہ ہوا ہی چاہتا ہے جس میں جیل جانے کا شوق پورا ہوسکتاہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ مضبوط اعصاب کا مالک اور مضبوط ایمان کا مالک جیل جانے سے نہیں ڈرتا وہ موت سے بھی نہیں ڈرتا لیکن مجھے سابق صدر زرداری کا بیان نہیں بھولتاانہوں نے اس حوالے سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ خان چھپکلی سے بہت ڈرتا ہے۔ شاید وہ کوئی خاص قسم کی چھپکلی ہو ورنہ میں نے تو انہیں چھپکلیوں سے ہی کھیلتے دیکھا ہے۔ ویسے عجیب بات ہے سیاست کرنا اور چھپکلیوں سے ڈرنا۔ ویسے کچھ چھپکلیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر اچھے بھلے بندے کی جان نکل جاتی ہے۔ مجھے اکثران کے فون و میسج آتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button