ColumnRoshan Lal

ایک اور یوم کشمیر ۔۔ روشن لعل

روشن لعل

ایک اور یوم کشمیر

کشمیر کے نام پر پاکستان میں جو مختلف ایام منائے جاتے ہیں ان میں سے ایک 5 فروری بھی ہے،شاید کچھ لوگوں کیلئے حیران کن ہو کہ13 جولائی 1931 کو سینٹرل جیل سری نگر کے اندر اور باہر کیے گئے احتجاج کے دوران ڈوگرہ فوج کی فائرنگ سے 22 مسلمانوں کی شہادت کے بعد سے آج تک کشمیریوں کی مختلف تحریکوں کے دوران جو کچھ بھی ہوتا رہا ان میں سے کوئی بھی اہم واقعہ 5 فروری کو رونما نہیں ہوا۔5 فروری کا کشمیریوں کی تحریکوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود پاکستان میں یہ دن اس طرح منایا جاتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس روز سرکاری اداروں میں خصوصی چھٹی کا اعلان نہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی کیونکہ اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تواس پر کشمیریوں کے مقصد سے انحراف کا الزام عائد کر دیا جائے گا ۔ مذکورہ الزام کے خوف یا کسی بھی دوسری وجہ سے پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت ہر سال 5 فروری کو اسی طرح منانے کی کوشش کرتی ہے جس طرح 1990 میں اچانک اعلان کے بعد اس دن کو یوم کشمیر کے طور پر منانے کاآغاز کردیا گیا تھا۔ کشمیریوں کے نام سے موسوم 5 فروری کا دن 1990 کے بعد ہر برسی یہاںخاص اہتمام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ ہر برس یہ دن مناتے ہوئے خاص قسم کے جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے کے باوجود کشمیری اور پاکستانی ان خواہشوں کے پورا ہونے سے بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں جن کے سچ ہونے کے خواب انہوں جاگتی آنکھوں سے دیکھنا شروع کیے تھے۔
جب کشمیریوں اور پاکستانیوں کو کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواب دکھانے کا آغاز ہوا اس وقت نوزائیدہ پاکستان کے متعلق یہ خیال پیدا کیا گیا تھا کہ آنے والے وقت میں یہ نو آزاد ملک بڑی تیزی سے معاشی ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ اگست 1947 میں قائم ہونیوالے پاکستان کی عمر قریباً 76 سال ہوجانے پر آج صورتحال یہ ہے کہ جس ملک کی اقتصادی ترقی کو دو چار برس کی دوری پر دکھانے کی کوشش کی جاتی تھی، 2023 میںا س کے دیوالیہ ہونے کے ممکنہ خطرات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ماضی میں اس ملک کے ساتھ بے مثال معاشی ترقی کرنے کی امیدیں وابستہ تھیں اور اب یہی ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کی زد میں ہے ،بعض لوگوں کیلئے یہ بات حیران کن ہے کہ ملک کے حالات ماضی کی امیدوں کے برعکس ہونے کے باوجود یہاں کشمیر کا دن مناتے ہوئے وہی نعرے لگائے جارہے ہیں جن میں ماضی میں دکھائے جانے والے خوابوں کاعکس نظر آتا ہے۔
وطن عزیز میں گزشتہ 75 برسوں کے دوران ایسے بہت سے ناپسندیدہ نتائج برآمد ہو چکے ہیں جنہیںہماری خواہشوں اور امیدوں کے مطابق نہ ہونے کے باوجود کبھی خارج ازامکان نہیں سمجھا گیا تھا۔ اس ملک میں اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ صرف خواہشوں اور امیدوں پر انحصار کرتے ہوئے یہاں ترقی کی جو عمارت تعمیر کرنے کے خواب دیکھے گئے اس کی بنیادیں استوار کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس وقت نہ اس بحث کی گنجائش ہے اور نہ اس میں الجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ کیونکر جائز تھا ، البتہ یہ بات کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ جب یہ ملک بن گیا تو عین اسی وقت سے اس کے ہندوستان میںدوبارہ ضم ہونے کا ہر امکان ختم گیا تھا۔ جس ملک کے قیام کے بعد اس کے جغرافیے کو سابقہ حالت میں لانا ناممکن ہو گیا تھا اس کے قائم ہونے کے دوران جو واقعات رونما ہوئے انہیں مدنظر رکھ کر یہ بات بغیر کسی حیل و حجت کے کہی جاسکتی ہے کہ اسے بنانے والوں اور اس کے بننے کی مخالفت کرنے والے دونوںکے نزدیک زمین کی تو بہت اہمیت تھی مگر اس زمین پر بسنے والوں انسانوں کے احساسات اور زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انسانی زندگیوں اور انسانی جذبات و احساسات کو نظر انداز کرکے بنائے گئے بھارت و پاکستان کی حکومتوں نے کشمیر پر اپنے اپنے دعوے کے دوران جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہی ظاہر ہوا کہ کشمیر کے معاملہ میں بھی ان کیلئے انسانوں کی بجائے زمین ہی زیادہ اہم رہی۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل ، فوراً بعد میں اور اب تک بھارت میں ابھرنے والے سیاسی قیادت کیلئے بھی پاکستانی قیادت کی طرح انسانوں کی نسبت زمین ہی زیادہ اہم ہے ۔ زیر نظر تحریر میں کیونکہ ایک پاکستانی کا موقف ہے اس لیے پاکستان میں اب تک جو کچھ ہو چکا ہے صرف اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ اس ملک کی جو حالت ہو چکی ہے اس میں عوام کی بجائے صرف اور صرف زمین کو اہمیت دیتے رہنے کی پالیسی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انسانی زندگیوں، جذبات و احساسات اور مال و متاع کی اہمیت کو نظر انداز کر نے کی پالیسی کی وجہ سے پہلے ہم نے مشرقی پاکستان کی زمین کو کھویا اور اب صورتحال یہ ہے کہ باقی ماندہ پاکستان کی زمین بھی ہمارے پائوں کے نیچے سے سرکتی ہوئی محسوس ہونے لگی ہے ۔ ایسی حالت میں بھی ہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا نہیں بھولتے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے میں اب بھی کوئی حرج نہیں مگر اس قسم کے اظہار کے دوران یہ سوچنا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ کشمیر میں بسنے والے جن انسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہم سال بھر کوئی نہ کوئی دن مناتے رہتے ہیں انہیں دینے کیلئے ہمارے پاس بھارت سے مختلف کیا ہے۔
گزشتہ 75 برسوں کے دوران کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہم نے جو کچھ کیا وہ صرف زبانی کلامی یا تقریبات کا انعقاد کرنے کی حد تک نہیں تھا۔ کشمیر اور کشمیریوں کیلئے ماضی میں دیکھے گئے خواب شاید اب بھی غیر اہم نہیں ہیں مگر ماضی اور آج کے حالات میں فرق یہ ہے کہ پہلے کبھی بھی ہماری بقا کا سوال اس طرح نہیں اُبھرا تھا جس طرح اب سامنے آچکا ہے۔ اس بات کو کسی طرح بھی مناسب نہیں سمجھا جا سکتا کہ ہم اپنی بقا کے سوال کو پس پشت ڈال کر تمام تر توانائیاں ایسے خواب دیکھنے میں صرف کردیں جن کے تعاقب میں اب تک سراب کے علاوہ ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آسکا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button