Editorial

دہشتگردوں کو نشان عبرت بنانے کا عزم

 

وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کا عزم کیا ہے۔ نیکٹا اور پولیس کی اپ گریڈیشن کی جائے گی۔ خیبر پختونخوا میں کاونٹرٹیررازم کا ہیڈ کوارٹر تعمیر اور جدید فرانزک لیبارٹری قائم کی جائے گی۔ دہشت گردی کے معاملے پر افغانستان سے بات کی جائے گی۔ فوجی عدالتیں فعال کرنے پر بھی غور کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم محمد شہبازشریف کی زیر صدارت پشاور میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ سات گھنٹے طویل اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے سکیورٹی امور پر بریفنگ دی۔ اعلامیہ کے مطابق وفاق اور صوبے ایک حکمت عملی اپنائیں گے۔ شہدا کی قربانیوں اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ قومی ایپکس کمیٹی کا اجلاس پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے کے بعد منعقد ہوا ہے۔ اس سانحہ میں سو سے زائد شہدا نے جام شہادت نوش کرکے دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ میں شہدا کی تعداد میں اضافہ کردیا ہے۔ درحقیقت دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرنے والی طاقتیں زبانی جمع خرچ اور مفادات کے حصول کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیتی ہیں لیکن لبادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اوڑھ رکھا ہے۔ سوویت یونین اور افغانستان کی جنگ میں ہمیں گھسیڑا گیا مفادات حاصل ہوئے تو تباہ حال افغانستان اور وہاں کے مسلح گروہ ہمارے لیے چھوڑ گئے۔ افغانستان سیاسی اور معاشی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار تھا لاکھوں افغان خاندانوں کی پرورش ہمارا فریضہ ٹھہرادی گئی یوں مسلح گروہوں کو ہماری جانب متوجہ رکھا گیا۔ نائن الیون کو بنیاد بناکر ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ بلند کرکے افغانستان پر چڑھائی کردی گئی جہاں پہلے ہی مسلح گروپ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن تھے اور ریاست کے نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہ تھی۔ قرین انصاف تو یہی تھا کہ سوویت جنگ میں ہمیں استعمال کرنے کے بعد ہمیں حالات اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پہ نہ چھوڑا جاتا مگر مقصد چونکہ توسیع پسندی اور مفادات کا حصول تھا لہذا وہی کیا گیا جو مفاد پرست کرتے ہیں۔ امریکہ افغان جنگ نے بھی یہی حقیقت آشکار کی کیونکہ جن کے خلاف بیس سال تک جنگ جاری رکھی گئی انہی سے اجازت لیکر جنگ سمیٹی مگر اس دوران جو کچھ امریکہ کی ناک تلے ہو رہا تھا وہ حیران کن تو نہیں تھا البتہ اس لحاظ سے افسوس ناک تھا کہ دہشت گردی کے نام پر شروع کی گئی جنگ کے دوران دنیا بھر سے دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں جمع اور منظم کرکے پاکستان کے خلاف میدان میں اتارا جارہا تھا۔ افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے یہی کام کر رہے تھے پس وہ دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے اقوام عالم کو دکھارہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان میں نہیں لڑی جارہی بلکہ پاکستان میں لڑی جارہی ہے اور نیٹو افواج نہیں بلکہ پاک فوج لڑ رہی ہے۔ افغانستان میں نیٹو افواج جدید اسلحہ اور وسائل کے ساتھ موجود تھی مگر وہیں سے دہشت گرد منصوبہ بندی سے منظم کرکے پاکستان روانہ کیے جارہے تھے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری فوج اور سکیورٹی فورسز نے محدود وسائل کے باوجود دنیا کی پہلی طویل اور منظم جنگ دلیری کے ساتھ اپنے نام کی۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہی مقصود تھا تو روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان کو بے یارومددگار اور پاکستان کو چیلنجز کے لیے نہ چھوڑا جاتا، اسی طرح امریکہ افغان جنگ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی ہوتی نہ ہی اسی ہزار سے زائد شہدا کے جنازے اٹھائے جاتے، افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا تھا تو اسی دوران ہم سے ہی ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ ہورہا تھا، رہی سہی کسر اُن قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کرکے پوری کردی گئی جو پہلے ہی امریکہ کو ناپسند کرتے تھے، پس کوئی ابہام نہیں کہ دہشت گردی کا شکار صرف اور صرف پاکستان تھااور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی پاکستان نے ہی لڑی اور کامیابی حاصل کی۔ آج خیبر پختونخوا اور بلوچستان بدامنی کا شکار ہیں اِس کی وجوہات پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردوں کی مکمل معاونت کررہا ہے اور پاک فوج اِن کا مردانہ وار مقابلہ کررہی ہے۔ صرف ایک بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار اقوام عالم کو بھارتی دہشت گردی اور مذموم مقاصد کے ثبوت فراہم کیے جاچکے ہیں، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے لیکراسلامی تعاون تنظیم تک ہر پلیٹ فارم پر ثبوتوں کے ساتھ بتایاجاچکا ہے کہ دہشت گردی کا شکار دراصل ہم ہیں اور ہمارے خلاف دہشت گردی کی جنگ بھارت نے چھیڑ رکھی ہے، مگر اِس کے باوجود آج تک بھارت کی پکڑ نہیں ہوئی، لہٰذا ہم کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں کہ دہشت گردی دراصل ہم پر مسلط کی گئی ہے اور ہم نے بیرونی دنیا کی مدد کے بغیر تن تنہا اپنے محدود وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے ہی اِس جنگ کو جیتنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد علم بلند کرنے والے سنجیدہ ہوتے تو آج بلاشبہ دنیا بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہوتا مگر معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ہم نے بیس سال سے زائد عرصہ قوت ایمانی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی اور فتح حاصل کی، ہم نے اب بھی اپنی قوت بازو اور دستیاب وسائل کے ساتھ دہشت گردوں کو شکست دینی ہے، جب ہم پر بیس سال پہلے جنگ مسلط کی تب صورت حال اور تھی، اب ہم دہشت گردوں کا بخوبی قلع قمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وسیع تجربہ اور قوت ایمانی اب بھی کام آئے گی بس ہمیں اِس جنگ میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button