ColumnKashif Bashir Khan

تنزلی کا تیز سفر! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کے موجودہ حالات کو لے کر عوام کی غالب اکثریت سہمی اور ڈری ہوئی ہے کہ آنے والے دنوں میں جانے کیا ہونا ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے تو برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا لیکن آئی ایم ایف کا وفد تو قبضہ کئے بغیر حکومت کو ہماری سرزمین پر بیٹھ کر عوام پر معاشی بجلیاں گرانے کے حکم صادر کر رہا ہے اور آفرین ہے اس وفاقی حکومت پر جس نے عالمی مالیاتی ادارے کے اپنے سے بڑے لیکن ہمارے کسی بھی بیوروکریٹ سے کم درجے کے افسران کے پاکستان پہنچنے سے دو دن قبل ہی پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں 35 روپے کا ظالمانہ اضافہ کر دیا،گویا پاکستان کے عوام کا خون نچوڑ کر اس استعماری و سامراجی ایجنٹوں(آئی ایم ایف) کی ٹیم کو سلامی پیش کی گئی۔پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال پر لکھتے لکھتے تو مجھ جیسے کی انگلیاں گھس چکی ہیں اور یہ سب لکھتے ہوئے خدشہ ہر وقت لگا رہتا ہے کہ سچ بولنے اور لکھنے کے جرم میں کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے لیکن پھر سوچ غالب آتی ہے کہ کیا ہوا اگر پاکستان میں اس وقت انسانی و اخلاقی حقوق کی سنگین پامالیوں کی جا رہی ہیں اور جو بھی زبان یا قلم کھولتا ہے، اسے ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی سالمیت اور وجود ان سب کارروائیوں سے افضل اور اہم ہے۔
بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ صحافی کو اول تو غیر جانبدار ہونا چاہیے دوسرا ریاستی اداروں کے بارے کچھ لکھتے اور بولتے خصوصی احتیاط برتنا چاہیے مگر افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ جن صحافیوں کو آج ریاستی اداروں سے گلہ محسوس ہو رہا ہے ماضی میں یہ تمام ہی صحافی اداروں کے بل بوتے پر ہی صحافت و مختلف صحافتی اداروں میں نوکریاں کرتے رہے۔خیر بات کہیں اور چلی گئی اور دل کی بات زبان پر آ گئی۔ میرے لیے بطور صحافی شرم کی بات یہ ہے کہ ریاست کے قوانین کی جس طرح پامالی پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان میں ہوتی چلی آرہی ہے اس کی دنیا میں مثال مشکل سے ملے گی۔عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے سرکاری اداروں کے بنک اکاونٹس اور جائیدادوں کو ڈکلیرکرنے کی جو شرط آج رکھی ہے میرے ناقص علم کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کیلئے لازم ہے کہ وہ ہر سال اپنے گوشوارے بحق سرکار جمع کروائے بلکہ اگر ان میں بڑھاوا آیا ہے تو اس بڑھاوے کی وجہ اور تفصیلات بھی جمع کرواے لیکن ماضی میں ہوا کہ کرپٹ سیاستدانوں اور طاقتور افسر شاہی کا ایسا غیر فطری اورخلاف قانون و آئین تعلق جڑا، جس نے سیاستدانوں کو نہ صرف ملکی وسائل لوٹنے کے طریقے بتائے بلکہ لوٹی ہوئی ملکی رقم کو ٹھکانے لگانے اور کروڑوں اربوں کا پارٹنر بھی بنوا دیالیکن قارئین کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں موجود وفاقی
حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی نیب کے ادارے کو اپنی اربوں کھربوں کی کرپشن کے مالی مفادات کے تحت قوانین تبدیل کر کے اپنے ہزاروں مقدمات ختم کروا کر اینٹی کرپشن اداروں اور نیب کورٹس کے پر کاٹ دیئے ہوں وہاں سرکاری ملازمین کے اثاثوں کا ڈکلیر کرنے کو زور دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔آج استعمار اور سامراجی قوتوں کے فرنٹ میں کا کردار ادا کرنے والے آئی ایم ایف کا وہ کردار بھی پاکستان کے عوام کو سمجھنا ہو گا جو نیب کے قوانین ختم کرنے والوں اور ان قوانین کے خاتمے سے مستفید ہونے والوں کے خلاف وہ ایک لفظ بھی نہیں بولتے بلکہ ان کے ساتھ مل کر پاکستان کے عوام کو دوبارہ سے غلامی کی زنجیریں پہنانے میں تیزی سے مصروف عمل ہیں۔
بارہا لکھ چکا کہ کسی بھی ملک کا معاشی استحکام وہاں کے سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔پاکستان میں جس طرز کی سیاست کو 80 اور 90 کی دہائی میں فروغ دیا گیا وہ نہایت ہی مکروہ اور غلیظ تھی، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آج بھی موجودہ حکومتی اتحادی اور ان کے ہمنوا ملکی سیاست میں وہی پرانا چلن کیے ہوئے ہیں جس کا انجام نہ صرف سیاسی عدم استحکام بلکہ معاشی تباہی نظر آ رہا ہے۔دنیا کے ممالک اپنے حکمرانوں کی وجہ سے ترقی کی طرف سفر کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں اس وقت چالیس سالہ آزمودہ اور تجربہ کار حکمرانوں نے پچھلے نو ماہ سے نہایت تیزی سے تنزلی کا سفر شروع کیا جو کہ اب زوالی منزل سے خدانخواستہ چند گام کے فاصلے پر ہے۔جس ملک کے حکمران سگریٹ،ہوائی سفر کے کرایوں اور پٹرول کی قیمتیں عالمی مالیاتی ادارے کے حکم کے مطابق بڑھانے کو ملک سے وفاداری سمجھتے ہوں اس ملک کے مستقبل کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی جس طرح پامالی ہو رہی ہے اور سیاست دانوں اور صحافیوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں وہ معاشی بدترین ابتری کے شکار پاکستان کے عوام کو بری طرح مایوسی میں مبتلا کر کر رہا ہے۔ سابق وفاقی وزراء فواد چودھری اور شیخ رشید کی گرفتاریاں اور پھر ان پر نشے کی حالت میں ہونے کے بیان نے وفاقی حکومت کی ترجیحات اور فسطائیت کو دنیا بھر کے سامنے برہنہ کر دیا ہے،جو کچھ موجودہ وفاقی حکومت کر رہی ہے وہ تو جنرل مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا حالانکہ جب مشرف حکومت میں آئے تھے تو اس وقت نواز شریف وغیرہ پر کارگل میں ملک سے غداری کا الزام بھی تھا لیکن انہوں نے بھی ایسا کوئی قدم اُس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے خلاف نہیں اٹھایا تھا۔ اتحادی حکومت و جماعتیں اس وقت سیاسی طور پر پاکستان کے سیاسی میدانوں سے غائب ہو چکی ہیں اور دونوں صوبوں کے انتخابات نہ کروانے کیلئے خیبر پختونخوااور پنجاب کی نگران حکومتوں اور دونوں گورنرز کے ساتھ مل کر پاکستان بھر میں صورتحال کو مصنوعی طور پر دہشت زدہ قرار دینے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔پشاور میں دفعہ 144 کا نفاذ اسی کھیل کا حصہ ہے۔ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال موجودہ اتحادی حکومت کی بند لیکن کرپشن کے باعث چھید زدہ مٹھیوں سے ریت کی مانند نکل چکی ہے اور اب اتحادی حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام اور فسطائیت سے بھرپور اقدامات کے ذریعے اقتدار سےچمٹے رہنے اور پاکستان کے آئین کو روندنے کی خواہش کی جارہی ہے جو ریاست کو توڑنے کے مترادف ہے۔
عمران خان نے جیلوں کو بھرنے کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر کے دنیا بھر کی پاکستان میں ہونے والے غیر آئینی و غیر جمہوری اقدامات کی جانب توجہ دلا دی ہے۔پاکستان میں اگر ایسی کوئی تحریک شروع ہو گئی تو بدترین معاشی تباہی کے شکار پاکستان میں صرف اور صرف انتشار ہی ہو گا جو پاکستان کو شدید خانہ جنگی کی جانب دھکیل سکتا ہے اور ایک حقیقت اس وقت اتحادی جماعتیں اور چارہ ساز جان چکے ہیں کہ عمران خان کو نااہل کیا جائے بلکہ اسے مار بھی دیا جائے تو عوامی رائے کو اب تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ جوقوت گویائی آج قوم کو عمران خان نے دے دی ہے وہ عوامی رائے کے شفاف اظہار کے بغیر کسی کو چین نہیں لینے دے گی۔ پاکستان آج بہت ہی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور موجودہ کمزور اتحادی حکومت کا ریاستی طاقت کے بیجا استعمال،سلاسل کی پابندیوں اور بزور شمشیر اقتدار پر قابض رہنا ممکن نہیں دکھائی دے رہالہٰذااتحادی جماعتوں کو عوام کی رائے کی جانب آئین پاکستان کے مطابق جانا ہی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button