
عالی جاہ! رعایا توجہ چاہتی ہے ۔۔ امتیاز احمد شاد
امتیاز احمد شاد
ریاست ماں جیسی ہونی چاہیےیا باپ جیسی۔ یہ بحث ہزاروں سال سے چلتی آرہی ہے۔ زیادہ اتفاق اس پر ہے کہ ریاست ماں جیسی محبت اور شفقت بانٹے اور باپ جیسا تحفظ اور سہارا دے۔ ترقی یافتہ مہذب ممالک ہر پیدا ہونے والے بچے کو ریاست یا مملکت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور دوسرے ایسے ملکوں میں بچے کی پرورش اور تربیت سے متعلق قوانین بہت سخت ہیں،اتنے سخت کہ ایشیا سے ان ملکوں میں منتقل ہونے والے تارکین وطن کے خاندان بعض اوقات کہہ اٹھتے ہیں کہ بچہ ہمارا ہے یا حکومت کا۔ صدیوں سے انسان تہذیب کے مختلف مراحل طے کرتا ہوا،ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدے تک پہنچا ہے۔ اب دنیا میں ایک سو پچانوے کے قریب ممالک ہیں،جہاں مختلف قسم کے آئینی قوانین،قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے۔مگر افسوس ریاست پاکستان کے باشندے 75سالوں بعد بھی دو وقت کی روٹی اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے محروم ہیں۔اقتدار میں جو بھی آیا اس نے عوام کو سہانے خواب دکھائے اور اپنی تجوریاں بھرنے تک محدود رہا۔جب قربانی کا وقت آیا تو بچاری خالی پیٹ،ننگے پائوں عوام کو ہی دینا پڑی۔صاحب اقتدار ہمیشہ سے مزے کرتے آئے ہیں۔اس وقت ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ہر طرف لوٹ مار اور افرا تفری ہے مگر حکومت اپنے مخالفین کو زلیل و رسوا کرنے میں مگن ہے۔حضور اقتدار کی راہداریوں سے نکل کر کبھی عوام میں تشریف لائیں آپ کو جمہورکے دلوں میں بھڑکتے شعلوں کی تپش بھسم نہ کر دے تو کہنا۔یاد رکھنا چنگاری کو شعلہ بننے میں فقط ہوا کے جھونکے کی ضرورت ہوتی ہے،آپ نے تو ظلم کے طوفان چلا رکھے ہیں۔عوام چیخ چیخ کر تھک چکی کہ مہنگائی نے جینا مشکل کردیاہے،مگر لوگوں کی بات سنتاہی کون ہے؟بات سننے کیلئے وقت دیناپڑتاہے اورعوام کو معلوم ہی نہیں کہ حکمرانوں کا ایک ایک سیکنڈقیمتی ہوتاہے۔حکمرانی کرنا بھلاکوئی آسان کام ہے!رعایا تو ہروقت توجہ چاہتی ہے۔اگر ساراوقت عوام ہی کیلئے دینا ہے تو اِنتخابات میں کروڑوں روپے لگاکر اقتدارتک پہنچنے کا انہیں کیافائدہ۔ حکمرانوں کو اپنی پڑی ہے،انہیں اپنے اربوں روپے آنے والی اپنی نسلوں تک منتقل کرنے ہیں اورعوام ہیں کہ بس حکمرانوں کی ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔
اُن کا ایک شورہے کہ ہرطرف سنائی دیتاہے ’’مہنگائی نے ماردیا،مہنگائی نے ماردیا‘‘ارے بھئی!بے چارے حکمرانوں کوسُکھ کا سانس تو لینے دیں ۔تمہیں مہنگائی کی پڑی ہے اورانہیں کمائی کی فکرہے۔ان کی جیبیں بھریں گی تو وہ دوسری طرف نظرکرسکیں گے۔سنا نہیں تم نے کہ کسی نے چاندکی طرف اشارہ کرکے ایک بھوکے سے پوچھاتھا کہ بابا!یہ آسمان پر گول گول سا کیاچمک رہاہے؟تو بھوک سے نڈھال باباجی نے جواب دیاکہ’’مجھے تو آسمان پر گول گول سی روٹی ہی نظرآرہی ہے‘‘باباکی طرح حکمران جب تک دولت سمیٹ، سمیٹ کر اپنے پاؤںپر کھڑے نہیں ہوجاتے،تب تک مہنگائی کی پسی ہوئی عوام کو صبر سے کام لینا چاہیے کہ حکمرانوں کو بھوکے بابا کی طرح اقتدارمیں آکرعوام نہیں،بس دولت ہی دکھائی دیتی ہے اورانہیں صرف اپنے ہی پیٹ کی فکرلاحق ہوجاتی ہے کہ اسے بھرناہے توکیسے بھرنا ہے؟اسی لیے تو وہ اقتدار میں آتے ہیں۔ اقتداریوں کی بھوک کب مٹا کرتی ہے! عوام کو بتایا گیا تھا کہ تیرا جماعتی اتحاداپنے تجربات کی روشنی میںانقلابی اقدامات اٹھا کر ان کی پریشانیوں کا سدباب کرے گا،لیکن ابھی تک کوئی ایسامؤثر قدم نہیں اٹھایاگیا کہ جس سے عوام کے قلبِ پریشاں کی تسکین ہوسکے۔ لگتاہے کہ مقتدرطبقے کو عوام کے احساسات کا ذرہ بھر احساس نہیں ہے۔
یاد رہے کہ جب توقعات ٹوٹنے لگیں تو پھر اقتدارکے مضبوط پائے بھی ہلنے لگتے ہیں۔کاش صاحبانِ اختیار!اس حقیقت کاادراک کرلیں کیونکہ مخلوقِ خداکی مظلومیت تو عرشِ الٰہی کو بھی لرزادیتی ہے۔روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ آٹا، چینی،گھی،چاول،دودھ،دالیں، سبزیاں اور گوشت کے ساتھ ساتھ موجودہ دورمیں بجلی، گیس، پٹرول اورادویات بھی بنیادی انسانی ضروریات ہیں، جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی انسانی حق ہے اور بنیادی انسانی ضروریات عوام کو فراہم کرنا ریاست اور حکومتوں کا فرض ہے۔ ہمارااُوپری طبقہ ہر معاملے میں امریکہ اوریورپ کی نقالی کی حدتک پیروی کرنا ضروری سمجھتاہے،لیکن اس طبقہ نے کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ امریکہ اوریورپ میں اشیائے خورونوش پر حکومت نے کنٹرول کررکھاہے اوروہاں کی حکومتوں اور سپرمارکیٹ بزنسز کااس بات پر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمت کم رہنی چاہیے، کیوں کہ یہ چیزیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ان ممالک کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں۔ وہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء حکومتی کنٹرول کی وجہ سے برس ہا برس سے بڑھنے نہیں پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش ہیںکیونکہ ان کویہ بنیادی ضروریات بہ آسانی اورسستے داموں حاصل ہوجاتی ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ہاں خورونوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ ہردکان میں اپنی مرضی کے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ قوتِ خریدکی ابتری سے حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ کچھ برس پہلے جو لوگ آٹا چینی، گھی، چاول، دال ہفتے یا مہینے کیلئے اکٹھا خریدا کرتے تھے، آج وہ روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں ہو پایاکہ گورنمنٹ کی رٹ کہاں پر قائم ہے۔اگر یوٹیلیٹی سٹوروں پر سبسڈی دے کر چیزیں بازارسے نسبتاً سستے داموں مہیاکی جاسکتی ہیں توآخرکیاامرمانع ہے کہ وہی اشیاء عام دکانوں یابازاروں میں سستے نرخوں پر کیوں فراہم نہیں کی جاسکتیں۔بے شک حکومت بازارمیں بکنے والی اشیاء پر سبسڈی نہ دے، مگر وہ اتناہی کردے کہ بڑی منڈیوں کو مکمل کنٹرول میں لے آئے اورذخیرہ اندوزوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرے تو یقین مانیں کہ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء ہر آدمی کی قوتِ خرید کے مطابق مل سکتی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کون کرے گا؟اختیارات حکومت کے پاس ہیں تو مہنگائی پر حکومت ہی قابو پاسکتی ہے۔کیا کوالٹی کنٹرول اورپرائس کنٹرول ادارے صرف بھتہ خوری یا رشوت خوری ہی کیلئے باقی رہ گئے ہیں اور ظالم منافع خورتاجروں اورسٹے بازدلالوں کوعوام کی رگوں میں بچ جانے والے چندخون کے قطروں کو بھی نچوڑ لینے کیلئے کھلا چھوڑ دیاگیاہے۔ناجانے کیوں اربابِ اقتداراللہ کے غیظ وغضب سے نہیں ڈرتے؟ وقت قریب ہے کہ جب آپ سے آپ کی رعایاکے بارے میں سوال ہوگا اورآپ سے کوئی جواب بن نہ پائے گا۔اگرآپ مخلوقِ خداکی خدمت عبادت سمجھ کرکریں گے تو دُکھی مخلوق کی پُرخلوص دعائیں بھی لیں گے اوراجروثواب بھی آپ کا مقدرہوگا۔وگرنہ آخرت کی دائمی ذلت ونامرادی سے دامن نہیں چھڑایا جا سکتا۔یادرکھیے! کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشادفرمایاکہ سات قسم کے خوش قسمت انسان، روزِ حشر، جب کوئی سایہ سوائے عرش الٰہی کے سائے کے، دستیاب نہ ہوگا،عرش الٰہی کے سایہ میں جگہ پائیں گے۔اُن میں پہلے نمبر پر عادل حکمران ہوگا۔ حکمرانوں کی نیک نیتی اورصاف دلی سے عوام پر رحمتِ الٰہی برستی ہے جو ملک میں سکون وطمانیت کی باد ِبہاری کے سندیسے اوراہل وطن کیلئے خوشحالی کے پیغام لاتی ہے۔