Columnمحمد مبشر انوار

تہہ در تہہ لپٹی سیاسی چالیں ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

موجودہ پاکستانی انتظامی نظام کو کسی بھی صورت جمہوری قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اس نظام کو واضح طور پر کوئی نام دیا جا سکتا ہے کہ مختلف نظاموں کا ایک ملغوبہ سا نظر آتا ہے۔ کبھی اس پر جمہوری کا گمان ہوتا ہے، کبھی آمریت دکھائی دیتی ہے، کبھی اس کے ہیولے پر فاشزم کی پرچھائیاں تنی نظر آتی ہیں، کبھی اس کی ترکیب ہیئت بھان متی کے کنبے کی ذاتی مفادات کی چھینا جھپٹی نظر آتی ہے جبکہ بد قسمتی سے ریاستی امور و مفادات کسی بھی طرح محفوظ نظر نہیں آتے۔ہَل مِن مَّزِید،چت بھی میری پٹ بھی میری، میری لاٹھی میری بھینس(یہاں ادراک رکھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ لاٹھی کس کی ہے)، لاٹھی، گولی کی سرکار مجسم نظر آتی ہے جو انتقامی بلکہ مضحکہ خیز کارروائیاں کرنے پر تلی نظر آرہی ہے کہ اگر ایک شخص کوئی بیان دیتاہے ، تنقید کرتا ہے تو فی الفور توہین، غداری اور بغاوت کی بو پورے ماحول میں رچی نظر آتی ہے۔ ردعمل کے طور پر، حکومتی زعماءتنقید یا کسی سوال کے جواب میں مذکورہ شخص کے خلاف ناقابل ضمانت فوجداری دفعات لگا کر گرفتار کر لیتے ہیں، یوں لگتا ہےجیسے ریاست چھوئی موئی بن چکی ہے کہ چند الفاظ سے اس کی سالمیت و خودمختاری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ البتہ یہ الفاظ اگرحکومتی اراکین کی جانب سے ادا ہوں، تنقید یا شکوہ وزراء و مشیران کی جانب سے ہو، تو نہ ریاست کو کوئی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی آئین سے غداری یا بغاوت دکھائی دیتی ہے لیکن اگراپوزیشن یا کوئی صحافی تنقید کرے تو اسے نقص امن کا اندیشہ بھی ہو جاتا ہے، خانہ جنگی کے آثار بھی نمودار ہو جاتے ہیں اور تضحیک بھی ہو جاتی ہے۔
اس ضمن میں اب تک اپوزیشن کے پانچ اہم شخصیات خمیازہ بھگت چکی ہیں جبکہ اس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شامل ہیں اور صحافیوں میں سر فہرست عمران ریاض خان کا نام نظر آتاہے۔ سیاسی شخصیات میں شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چودھری ، شیخ رشید اور عمران خان پر تنقید اور الزام لگانے پر ہی بلوہ؍خانہ جنگی؍غداری جیسے سنگین مقدمات درج ہو چکےہیں اور اس کی پاداش میں شہباز گل، اعظم سواتی اور فواد چودھری جسمانی ریمانڈ کی صعوبت و ذلت کے بعد عدالتوں کے چکر لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران ریاض خان کسی بھی صورت اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور تسلسل کے ساتھ رجیم چینج آپریشن پر سخت تنقید ہی نہیں کر رہے بلکہ اپنے سوالوں کا جواب بھی مانگ رہے ہیں اور یوں آ بیل مجھے مار کے مصداق، تکالیف کودعوت دے رہے ہیں۔
کسی بھی جمہوری حکومت میں ایسی تنقید کو برداشت کرنا انتہائی معمولی بات ہے اور جمہوری حکومتیں، ایسی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہیں لیکن موجودہ حکومت جو بقول میاں جاوید لطیف، ڈیڑھ سے دو ماہ قبل ملی، ایسی تنقیدپر شدید ردعمل کا مظاہرہ نجانے کیوں کر رہی ہے؟ یہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ میاں جاوید لطیف کا حکومت ملنے کا دعویٰ ہنوز غلط ہےیا دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موجودہ حکومت میدان سیاست میں گلیاں سنجیاں کرنے کے درپے ہے؟ کسی بھی سیاسی حکومت کی سنجی گلیوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن میدان سیاست میں عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں کہ سیاسی لغت میں اسے فاشزم کہا جاتا ہے۔
شنید تو یہ بھی ہے کہ اس طرز حکومت کو، حکمران جماعت کی نظر میں جمہوری، اپوزیشن کی نظر میں انتقامی اور سیاسی لغت میں فاشزم، مزید بڑھانے؍ پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اکلوتے اپوزیشن لیڈر عمران خان کو بھی پابند سلاسل کرنے کی کوششیں بہرطور جاری ہیں۔ عمران خان کے خلاف مقدمات میں تیزی اور نئے مقدمات کی تیاری، اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ حکومت ہرصورت عمران کو سیاسی میدان سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن کیا حکومت اپنے اس مقاصد میں کامیاب ہو پائے گی؟اس کا جواب بھی انتہائی سادہ اور سامنے ہے کہ عمران خان پر دباؤ بڑھانے کیلئے اس کے قریبی ساتھیوں کو توڑنے کی بھرپورکوششیں جاری ہیں جس میں بظاہر ابھی تک حکومت اور اس کے پشت پناہ ناکام نظر آتے ہیں تو دوسری طرف براہ راست عمران خان کو پابند سلاسل کر کے، کیا اس کی آواز دبائے جا سکے گی؟ کیا اسے نااہل قرار دے کر، اس کے ووٹرز کو اس سے بد ظن کیا جاسکتا ہے یا انہیں ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا ہے؟ کیا عمران خان کو جان سے مارنے کے بعد اس کی سوچ سے چھٹکارا ممکن ہے؟اس خدشے کے اظہار پر ایک طرف شیخ رشید کو مختلف فوجداری دفعات کے تحت گرفتار کر کیا گیا ہے تو دوسری طرف عمران خان پرآصف زرداری نے ہتک عزت کے ہرجانے کا دعوی کر دیا ہے۔ ایسے خدشات کو کسی بھی عدالت میں ثابت کرنا قریباً نا ممکن ہے تاہم اگر عدالتیں چاہیں تو اس کو تسلیم بھی کر سکتی ہیں کہ ماضی میں اس کی مثال موجود ہے تاہم تب نظریہ ضرورت تسلیم کرنے میںتھا۔ اس خدشے کا قبل از وقت اظہار بہرکیف عمران پر ایک اور حملہ کو روک پاتا ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ عمران قاتلانہ حملے کا نہ صرف خدشہ بلکہ جگہ کے متعلق اور ذہنی کیفیت کا اظہار کرنے کے باوجود قاتلانہ حملہ رکوا نہیں سکے تھے، توکیا اب زرداری پر براہ راست الزام لگانے کے بعد یہ حملہ رک سکے گا؟
عمران خان کا اس وقت تو صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ فی الفور شفاف عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے لیکن حکومت اس مطالبے کوبظاہر رد بھی کرتی ہے اور دوسری طرف حکومتی جماعتیں عوام سے رابطے بھی شروع کر چکی ہیں، حکومتی اہم شخصیات کےبیانات ایک طرف حکومت کی مدت بڑھانے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری طرف ایسی حکومت کی بجائے عوام سے رجوع کرنے کے بیانات دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ بظاہر یہ صورتحال غیر یقینی لگتی ہے لیکن در پردہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی سوچ اس حوالے سے کلی طور پر مختلف ہے اور ایک اتحادی بلکہ ایک سیاسی جماعت میں واضح تفریق موجود ہے کہ ایک دھڑا فوری انتخابی میدان میں اترنے کیلئے تیار ہے جبکہ اسی جماعت کا دوسرا دھڑا یہ تاثر دیتا دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ تاہم پس پردہ دونوں دھڑوں کا اتفاق محسوس ہوتا ہے کہ میدان ہر صورت اپنے ہاتھ رہے اور اس کیلئے مسلسل اورہمہ جہتی کوششیں جاری ہیں۔ بالخصوص پنجاب میں نون لیگ ہر صورت بعینہ ویسے ہی اقتدار میں واپسی چاہتی ہے جیسے پیپلزپارٹی نے سندھ کے بلدیاتی انتخابات جیتے ہیں۔اس مقصد کے حصول میں جو لائحہ عمل، جو پالیسی روبہ عمل ہے، اسے کسی بھی طور نظریاتی یا اصولی نہیں کہا جا سکتا البتہ تہہ در تہہ لپٹی سیاسی چالوں کا مظہر ضرور ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button