Editorial

اہم قومی چیلنجز پر آل پارٹیز کانفرنس

 

وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی صورتحال پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے پارٹی قائدین کو سات فروری کو ہونے والے آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کر لیا ہے۔ کانفرنس میں ملک کو درپیش چیلنجز، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اہم فیصلے متوقع ہیں۔ اے پی سی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم اگلے دن اے پی سی سے متعلق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت کے حوالے سےپی ٹی آئی کنفیوژن کا شکار ہے۔ دعوت نامہ قبول تو کرلیا ہے لیکن حتمی فیصلہ پارٹی چیف کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ جمعرات کو ملک میں اہم سیاسی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا مقصد معاشی اور سیاسی بحران پر قابو پانے کے لیے حل تلاش کرنا ہے اور یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کو دہشت گردی کے شدید خطرے اور پریشان کن معاشی اور سیاسی حالات کا سامنا ہے اور وزیراعظم تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو میز پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کے راستے تلاش کر سکیں۔ سیاسی، معاشی اور سکیورٹی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بلاشبہ بہت دیر سے ہورہا ہے، وطن عزیز جن چیلنجز سے دوچار ہے اِن کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی قیادت کو کئی سال پہلے متحد و متفق ہوجانا چاہیے تھا تاکہ حالیہ پریشان کن صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا مگر سیاسی کج بحث اور مخالفت برائے مخالفت نے قومی قیادت کو مسائل کی طرف اُس طرح متوجہ نہیں کیا جیسا ضرورت تھی، سیاسی قیادت نے جتنے فارمولے ایک دوسرے کے خلاف آزمائے اور ہر دور میں حزب اقتدار اور حزب مخالف نے ایک دوسرے کے منصوبوں کو سیاسی تنائو اور چیرہ دستی کے ذریعے ناکام بنانے میں قوت صرف کی اگر یہی توانائی ملک و قوم کے مفاد میں خرچ کی جاتی تو آج ہم اِن مشکل حالات سے دوچار نہ ہوتے، مگر سیاسی عدم استحکام کو ہی جمہوریت اور جمہوری دائو پیچ سمجھنے والوں نے آج ملک و قوم کو اِس نہج پر پہنچادیا ہے، چونکہ باہمی معاملات سے فرصت نہیں ملتی، ایک دوسرے کواُلجھائے رکھنا لازم و ملزوم خیال کیا جاتا ہے لہٰذا حقیقی مسائل نظر انداز رہتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ بحران کی صورت اختیار کرلیتے ہیں پھر ہم اِن بحرانوں کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ سبھی کے رویے اِس کی بنیادی وجہ ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے آل پارٹیز کانفرنس کا دعوت نامہ تو قبول کرلیا ہے لیکن شرکت کا حتمی اعلان نہیں کیا اور شاید اِس کی بنیادی وجہ حالیہ دنوں میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تحریک انصاف اور اِس کی اتحادی جماعتوں کے خلاف کارروائیاں ہیں جن کو وہ سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں لہٰذا دھڑکا یہی ہے کہ ان کارروائیوں کو ہی بنیاد بناکر شاید اے پی سی میں شرکت سے انکار کردیا جائے مگر پوری قوم چاہتی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں سیاسی، معاشی اور سکیورٹی صورت حال پر ایک پیج پر ہوں اور ہم بھی ہمیشہ سے یہی استدعا کرتے آئے ہیں کہ خدارا ! ملک و قوم کے لیے متحد ہوجائیں اور مل کر ہی اِن چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی راہ نکالیں کیونکہ ہم اِس گہری دلدل میں جتنا دھنس چکے ہیں، کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں کہ وہ اِس سے ملک و قوم کو نکالے۔ کوئی بھی حکومت پانچ سال کے آئینی عرصے میں پچہتر سال کے مسائل دور کرسکتی ہے اور نہ ہی اُن خرابیوں سے نمٹ سکتی ہے، عین ممکن ہے کہ اِس حوالے سے کچھ مثبت پیش رفت ہو بھی لیکن سیاسی عدم برداشت اور عدم استحکام کی ایسی فضا قائم رکھی جاتی ہے جو کسی بھی منتخب حکومت کو پوری توجہ اِن مسائل اور بحرانوں پر مرکوز کرنے نہیں دیتی، جیسے ہی کوئی سیاسی جماعت مینڈیٹ لیکر اقتدار میں آتی ہے اِس کو مینڈیٹ کو مسترد کرکے عین حلف برداری کے روز ہی رابطہ عوام مہم شروع کردی جاتی ہے جو حکومت کے خاتمے تک پورے اہتمام کے ساتھ جاری رہتی ہے، بہرکیف مرکز میں تبدیلی کے بعد حالیہ دنوں میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل اورحزب مخالف کی گرفتاریاں ہوئیں جو بلاشبہ نہیں ہونی چاہئیں تھیں کیونکہ درپیش چیلنجز سیاسی استحکام اور رواداری کا تقاضا کرتے ہیں اور ہم ہمیشہ سے یہی استدعا کرتے آئے ہیں کہ وقت کو ہاتھ سے نکلنے مت دیںاسی لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف کا آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے خصوصاً ایجنڈے میں سیاسی اور معاشی مسائل کو شامل کرنا کیونکہ جب سیاسی استحکام ہوگا تو اِس کے معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ملک دشمنوں کو بھی ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گالہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو اِن اہم چیلنجز پر ہونے والی آل پارٹیز میں شرکت کرنی چاہیے اور گاہے بگاہے ایسی کانفرنس کا سلسلہ جاری بھی رہنا چاہیے، تاکہ ہم بھی کج بحثی سے نکل کر حقیقی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلنے کے قابل ہوں اور عوام کی مایوسیاں بھی کم ہوں جو سیاسی نظام بالخصوص آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں، عوام کی اکثریت سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت اُن کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button