ColumnHabib Ullah Qamar

کشمیریوں سے یکجہتی اور دہشت گردی .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

دنیا بھر میں پانچ فروری مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی پاکستان سمیت پوری دنیا میں کشمیریوں کی لازوال قربانیوں اور تحریک آزادی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ریلیوں، جلسوں، سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس مرتبہ پانچ فروری کا دن ہم ان حالات میں منا رہے ہیں کہ اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے ملک میں بم دھماکوں اوردہشت گردی کی وارداتوں کو ایک بار پھر پروان چڑھانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں خوفناک دھماکہ کیا گیا جس میں ایک سو سے زائد افراد شہید اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے۔ میانوالی میں بھی پولیس تھانے پر حملہ کیا گیامگرپولیس کے اہلکاروںنے انتہائی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناکام بنادیا۔ ایسے ہی ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی تخریب کاری و دہشت گردی کے ذریعے امن و امان برباد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کا عفریت سر اٹھا رہا ہے تو دوسری جانب سیاستدانوں کی باہمی لڑائیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور لوگ فاقوں مر رہے ہیں لیکن حکمران و سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان ہیں اور ملک کو درپیش مسائل کی طرف سرے سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے فوجی کمانڈرز پر زور دیا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی نئی لہر کچلنے کیلئے پوری قوت صرف کی جائے۔اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال بھی زیر بحث آئی ، خاص طور پر مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں کی بھی مذمت کی گئی۔ کورکمانڈرز کانفرنس میں دہشت گردی اور کشمیر جیسے اہم موضوعات پر تفصیل سے غوروخوض کرنا اچھی بات ہے اور اس حوالے سے سبھی سیاسی جماعتوں اور اہم طبقوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے لیکن حقیقت ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی حقیقی معنوں میں مدد پاکستان اسی وقت کر سکتا ہے جب ملک میں استحکام ہو۔ اس لیے ریاست پاکستان کو دہشت گردی کرنے والے خفیہ ہاتھ نہ صرف پوری دنیا پر بے نقاب کرنے چاہییں بلکہ اس کا توڑ کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں۔
پانچ فروری کے موقع پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے ملک بھر میں یکجہتی کشمیر اور تحفظ حرمت قرآن کے حوالے سے بڑے پروگراموں کے انعقاد کا اعلان کیا گیاہے تاکہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ سویڈن اور ہالینڈ میں قرآن پاک کی(نعوذباللہ)گستاخیوں کے خلاف بھی بھرپور آواز بلند کی جاسکے۔حکومت پاکستان کی طرف سے ہر سال پانچ فروری کو عام تعطیل کا اعلان اورسرکاری سطح پر کشمیریوں کے حق میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اس مرتبہ بھی کل لاہور سمیت پورے ملک میں خصوصی تقریبات ہوں گی جن میں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔5فروری وہ دن ہے جب پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں ایک خاص ماحول دکھائی دیتا ہے۔مظلوم کشمیریوں کیلئے آواز بلند کرنا اچھی بات ہے لیکن اس سلسلہ کو صرف ایک دن تک محدود نہیں
رہنا چاہیے۔بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اس لیے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے منشور میں مسئلہ کشمیر کو اولین حیثیت حاصل ہونی چاہیے، مگر افسوس کہ ایسا نہیں۔ چند ایک مذہبی اور کشمیری جماعتیں ہیں جو عوام میں جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہیں اور کشمیریوںکو بھی اس سے حوصلہ ملتا ہے کہ حکمرانوں کی مجبوریاں ہوسکتی ہیں مگر غیور پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے،کشمیری مسلمانوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ نو لاکھ بھارتی فوج آئے دن نت نئے مظالم ڈھانے میں مصروف ہے۔مقبوضہ کشمیر میںبستیوں کا محاصرہ کر کے نہتے مسلمانوں کا خون بہانا معمول بن چکا ہے۔ کشمیری تاجروں کا کاروبار سازش کے تحت برباد کیا جارہاہے۔ ہندوستانی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے پہلے حریت لیڈروں کو حراست میں لیا گیا،ان پر پاکستان سے مبینہ فنڈنگ کے الزاما ت لگا کر جیلوں میں ڈالا گیا،ان کیخلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر مبنی چارج شیٹ عدالتوں میں پیش کی گئی اور اب تحریک آزادی میں حصہ لینے والے طلبا، تاجر اور وکلاء رہنمائوں کو بھی قیدو بند کی صعوبتوں کا شکار کیا جارہا ہے۔بھارتی جیلوں میں کشمیری لیڈروں سے ناروا سلوک معمول بن چکا ہے اور محمد یٰسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی سمیت دیگر لیڈروں کو شدید بیماری کے باوجود طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمتیں بھی محفوظ نہیں۔ بھارتی فوج محاصروں کے دوران جہاں لوگوں کے گھروں میں گھس کر قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرتی ہے اور ان کی جائیدادیں و املاک برباد کرتی ہے، وہیں خواتین سے دست درازی اور بداخلاقی کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ سرگرم کشمیری نوجوانوں کو ان کی رہائش گاہوں سے زبردستی اٹھا کر محض ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپوں میں شہید کیا جارہا ہے۔ ماضی میں ہندوستانی فوجی افسروں کی طرف سے جنگلوں میں ایسی کارروائیاں کی جاتی تھیں لیکن اب یہ سلسلہ کشمیر کے گلی کوچوں میں عام ہو چکا ہے۔یہ ہندوستانی تاریخ کا شرمناک باب ہے کہ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل(ر) بکرم سنگھ سمیت کئی فوجی کمانڈر وں نے فرضی جھڑپوں میں نہتے کشمیریوں کو شہید کر کے تمغے وصول کئے ہیں اور اس حوالے سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کئی مرتبہ رپورٹیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔راجپوت رجمنٹ کے سابق کمانڈنگ آفیسر سمیت چھ اہلکاروں پر فرضی جھڑپ اور حراستی قبل کے جرم میں عمر قید کی سزا دینے کی بھی سفارشات پیش کی گئیں تاہم یہ سب کچھ محض دکھاوا تھا۔ اس سے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں اگر کوئی بھارتی فوجی ناحق قتل کرتا ہے تو انہیں بھی سزا سنائی جاتی ہے مگر حقیقت میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مژھل فرضی جھڑپ میں بھی ایک طرف ہندوستانی فوجی عدالت نے یہ سزا سنائی تو دوسری جانب بھارتی فوجی افسر اپنے عہدوں پر بھی تعینات رہے اور پھر کچھ عرصہ بعد انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی افسروں کی جانب سے ترقیاں اور تمغے حاصل کرنے کیلئے نہتے کشمیریوں کا قتل عام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جنرل(ر) بکرم سنگھ کی طرح ان کے بعد بننے والے بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ پر بھی نہتے کشمیریوںکا خون بہانے کے الزامات تھے یعنی کشمیر میں فرضی جھڑپوں اور شہادتوں کے واقعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میںان دنوں ہر شہر اور علاقہ میںفرضی جھڑپوں کے واقعات پیش آرہے ہیں اور قتل و غارت گری کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہامگر بین الاقوامی دنیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروںنے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ہم صرف پچھلے ایک ماہ کا ہی جائزہ لیں تو درجنوں کشمیریوں کو شہید کیا گیا اور متعدد گھروں اور دکانوں کو بارود سے اڑایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کی صنعتی و زرعی اراضی زبردستی قبضے میں لے کر غیر کشمیریوں کے حوالے کررہی ہے اور سازش کے تحت وادی کشمیر میں بھی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پانچ اگست کے متنازعہ فیصلے کے بعد سے کشمیریوں کا قتل و خون بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ مظلوم کشمیری مسلمان پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اوران کی اہل پاکستان سے محبت میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں اور اپنی گھڑیاں پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو ان کی نگاہیں پاکستانی رویتِ ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیں۔یوم پاکستان ہو یا یوم آزادی ہر موقع پر کشمیر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستانی قوم سمیت پوری مسلم دنیا اس بات کا عہد کرے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی ہر ممکن مددوحمایت کی جائے گی اور انہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑاجائے گا۔بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کر تے ہوئے جب تک کشمیریوں کو یو این کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت نہیں دلوایا جاتا مقبوضہ کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں شہادتوں اورناحق خون بہانے کا سلسلہ ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button