ColumnJabaar Ch

حلال معیشت .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

(گذشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ پیر کی اشاعت میں انہی صفحات پر میرا کالم ’’حلال معیشت‘‘شائع ہوا تواس کا غیرمعمولی فیڈ بیک موصول ہوا۔اس فیڈ بیک کو دیکھ کراطمینان ہوا کہ جس شعبے کی میں نے نشاندہی کی تھی اس میں ممکنہ طورپرایکسپورٹ کا دم خم ہوسکتا ہے۔ طریقہ کارپر اختلاف ممکن ہے لیکن جتنے بھی مسائل ہوں وہ ایسے نہیں کہ حلال فوڈ انڈسٹری کو معیشت کا حصہ بنانے کیلئے کام نہ کیا جائے۔کالم لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ معیشت کی بہتری کیلئے آئی ایم ایف اور دوسرے مالی اداروں سے قرض لے کروقتی کام چلانے اوراس عمل سے اپنی معیشت کو مسلسل بیمارہی رکھنے سے جان چھڑائی جائے۔اس آئی ایم ایف نامی حکیم سے دوائی لینا بیماری سے نجات نہیں بلکہ بیماری کو مزیدبڑھاوا دینا ہوتا ہے۔ قرض لینا آسان جبکہ پیساکمانا مشکل ہے لیکن دونوں میں فرق بہت ہے کہ کمایا ہواپیسہ اپنا ،اپنی ملکیت، اس کو خرچ کرنے کی آزادی جبکہ قرض کا پیسہ ادھار اور واپس کیے جانے کا پابند۔اوپرسے اصل رقم کے ساتھ سود الگ۔اس لیے جن قوموں نے بھی ترقی کی یا ترقی کرنے کی چاہ رکھی انہوں نے پیسہ کمانے کے عمل کو چاہے وہ کتناہی مشکل اورجاں گسل کیوں نہ ہواسی کواپنایااورقرض کے قریب جانے سے مسلسل گریز کی راہ پر چلے۔
حلال معیشت پر لکھے گئے کالم کو سینئرصحافی اور یو ٹیوبرعالیہ شاہ نے پڑھا تواس وقت آئی ایم ایف کا وفدپاکستان آچکاتھا انہوں نے اس ایشوپر گفتگو کیلئے بلالیا،وہ گفتگویوٹیوٹ پر عالیہ شاہ کے چینل پر موجود ہے، نورین حیدرجو کالم نگار اورمصنفہ ہیں۔ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں اثر انگیز کام کررہی ہیں ۔آجکل کلائمیٹ چینج کے پراجیکٹ پر کام کررہی ہیں ۔ان کی طرف سے ایک تنقیدی نوٹ موصول ہوا۔پہلے ان کی باتیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں ۔آپ بھی پڑھ لیں بعد میں بھی رائے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ حلال فوڈ اورخاص طوپر گوشت کی ایکسپورٹ پر ان کے اعتراضات جائز لگتے ہیں لیکن ایسی ناممکن چیزبھی نہیں کہ راستہ نہ نکالاجاسکے۔نورین حیدرصاحبہ نے لکھ بھیجاکہ پاکستان سے کوئی بھی تازہ پھل،سبزی یا خاص طورپر گوشت کی ایکسپورٹ ایک مہنگاسودا ہے۔گوشت کے جلد خراب ہونے کا ڈررہتا ہے اس کیلئے خاص کولڈ چین کی سہولت بدرجہ اتم لازمی ہے۔پھر اگر ہمارے ملک میں جوسرخ فیتے کے اثرات ہیں وہ آڑے آجائیں تو ایکسپورٹرکا مال بندرگاہ پر ہی خراب ہوجانے کا ڈرالگ ہوتا ہے۔پھر ان تازہ اجناس کی سنبھال ایک مشکل کام ہے ۔اس میں رسک زیادہ کمائی کم ہے، دوسرا خدشہ انہوں نے یہ رکھا کہ کلائمیٹ چینج کے پس منظر میں پوری دنیا میں مہم جاری ہے کہ بیف (بڑاگوشت)کا استعمال کم کیا جائے کیونکہ جتنا زیادہ بیف کھایا جائے گا اس کا کاروبارہ بڑھے گا اوراس کی پیداوار کیلئے زرعی زمین کی ضرورت ہوگی۔اس کیلئے کئی ممالک میں جنگلات کاٹے گئے اورموسمیاتی تبدیلوں نے ان ممالک کولپیٹ میں لیا ایک خدشہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ جو سیلاب زدہ علاقے ہوتے ہیں وہاں اگر لائیوسٹاک معیشت پر دارومدار ہوتو سیلاب کی صورت میں لوگ مویشیوں کی وجہ سے محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے سے انکار کردیتے ہیں تو اس سے جانی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔نورین حیدر صاحبہ کے خدشات یا رکاوٹوں کی نشاندہی میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے اور راجا طاہر لطیف جو حلال فوڈ انڈسٹری کی داغ بیل کیلئے کام کررہے ہیں ان تک بھی پہنچادی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نورین صاحبہ نے جو بھی نکات اٹھائے ہیں ان کا سد باب کیا جاسکتاہے ۔
اگر ہم نے حلال فوڈ ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی بنانی ہو ۔اس میں فائدہ ہوسکتا ہو تو پھر اس سیکٹرکی شیلف لائف کی ضرورت کے مطابق بندر گاہوں پر انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔اس سیکٹر کو ترجیحی لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے تا کہ جلداز جلد کنٹینر کلیئر ہوجائیں ، مال بحفاظت منزل پرپہنچ سکے ۔خیر یہ تو کرنے کے کام ہیں اور شاید کچھ تگ ودو اور محنت طلب بھی لیکن ہمیں اتنی محنت کرنے کی عادت نہیں کیونکہ ہمیں آئی ایم ایف کے ترلے اور اپنی قوم پر ٹیکس لگاکر اتنے ڈالر مل جاتے ہیں کہ ہم کچھ دیر کیلئے عیاشی کرسکیں یا قرض لے کر آگے بڑھ جائیں اور ادائیگی اگلی حکومت جانے اور اس کا کام جانے اور اگر وہ ان ادائیگیوں کی وجہ سے دیوالیہ ہونے لگیں تو منہ کے آگے باقاعدہ ایک بڑا سا بھونپو باندھ کر شور مچانا شروع کردیں کہ دیکھا جب تک ہم تھے تو سب ٹھیک تھا ہمیں نکالا ہے تو ملک سری لنکا بننے چلا ہے اس لیے ہمیں دوبارہ لایا جائے نہیں تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا ۔وہ بھونپو یہ نہیں بتاتے کہ سری لنکااس لیے بننے لگا ہے کہ جناب نے چار سال قرضے لے کربار بار آئی ایم ایف کے معاہدے توڑنے کے علاوہ اور کیا ہی کچھ نہیں ہے ۔پورے ملک نے ستر سالوں میں جو بقول آپ کے تیس ہزار ارب روپے قرض لیا تھا جناب نے صرف چار سالوں میں اس میں بیس ہزارارب روپے اضافہ فرمایا ہے تو دیوالیہ اگر ہونے کا خدشہ ہے تو قبلہ آپ کی پوری محنت شامل ہے اس دیوالیہ پن میں ۔
عمران خان موجودہ معاشی تباہی کے بانی قائد ہیں۔اسد عمرنے تباہی کی بنیاد رکھی۔اس کو ٹالنے کیلئے حفیظ شیخ کو لایا گیا ۔حفیظ شیخ نے خود کو سیاست سے الگ رکھ کرصرف معاشی بہتری کی کوشش کی جو رنگ لانے لگی تو شوکت ترین بربادی کانیوتالے کر کپتان کی بارگاہ میں پہنچ گئے ۔جانے کیا کیا خواب دکھائے ۔حفیظ شیخ بارے بتایا کہ خان صاحب یہ بندہ آپ کی سیاست میں رکاوٹ بنے گا۔ یہ صرف معیشت کا سوچ رہا ہے آپ نے صرف معیشت نہیں سیاست بھی کرنی ہے۔الیکشن بھی جیتنے ہیں اس لیے ارکان اسمبلی کیلئے ترقیاتی فنڈز کے دروازے کھولیں۔ احساس پروگرام کے ذریعے دوسو ارب کیش بانٹیں دیکھیں کس طرح پیپلزپارٹی نے بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے سندھ میں پنجے گاڑرکھے ہیں۔یہ سننا تھا تو کپتان نے فرمان جاری کیا بولوپنسل حفیظ شیخ کینسل یہ بات کبھی نکلے گی کہ حفیظ شیخ اکثریت کے باوجود کس طرح سینیٹ کا الیکشن ہارے ۔ یہ عقدہ کھلے گا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے اپنے ہی ایک گروپ کو منحرف کیا گیا تاکہ حفیظ شیخ کا پتا کاٹ کر شوکت ترین کادرخت کاشت کردیا جائے۔حقائق تلخ بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی کہ ہم معیشت کے اندرگھس کرسیاست کرنے سے بازہی نہیں آتے۔ہربجٹ میں اپنا الیکشن دیکھتے ہیں ۔
حفیظ شیخ کی رخصتی اورشوکت ترین کی آمد کے ساتھ ہی ملک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھنا شروع ہوگیا تھا۔ایک طرف شوکت ترین آئی ایم ایف سے معاہدے میں لکھ کردے آئے کہ پٹرول پرلیوی کو مرحلہ وار پچاس روپے تک بڑھا یاجائے گا لیکن جب بڑھانے کی باری آئی توعدم اعتماد کی تحریک دیکھ کرپٹرول سستا کرکے دیوالیہ پن کی بنیاد ڈال گئے۔خان صاحب سے یہی ایک شکوہ کافی ہے کہ انہوں نے ملک کو دیکھا ہی کب ہے ؟وہ تو اپنی سیاست کے فکرمیں اس ملک کی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجاتے گئے یہاں تک کہ نہ معیشت بچی اور نہ ہی ان کی سیاست اورحکومت۔آج پورا پاکستان ملبے کے ڈھیر پر کھڑا ہے ۔یہ ایسا ڈھیر ہے کہ بڑے بڑے سورماؤں کی مقبولیت کے زعم کو دھول چٹانے کیلئے کافی ۔
رواں ہفتے آئی ایم ایف کا وفد اللہ اللہ کرکے پاکستان آیا ۔ہم نے پٹرول کی قیمت پینتیس روپے بڑھا کر اپنے عوام کی بھلی آئی ایم ایف کی دیوی کے سامنے رکھی تو دیوی نے کہا ہاں یہ توٹھیک ہوگیا لیکن کافی نہیں ۔مزید قربانی پیش کی جائے ۔ہم نے سن لیا اورمزید خون آشام اقدامات کیلئے تھوڑا وقت مانگ لیا ہے۔ ڈار پھر معجزے دکھائیں گے ۔ایسی ایسی جگہ ٹیکس لگیں گے کہ کسی کے وہم وگمان میںنہیں ۔ معیشت ٹھیک کرنے کیلئے دو طرح کے اقدامات لازمی ہیں اگر ہم کرپائیں لیکن شہبازشریف سے امید کیا ہے؟طریقہ بھی یہی کہ آمدنی بڑھائی اوراخراجات کم کیے جائیں ۔بس سمجھ لیں حکومت نے جو سورکنی کابینہ کی بریانی پکارکھی ہے نا اس کو نصف کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button