Editorial

دہشت گرد کسی کے دوست نہیں !

 

وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سوالات کیے ہیں کہ دہشت گردوں کو کون واپس لایا اور کس نے کہا تھا کہ یہ جہادی پاکستان کے دوست ہیں؟یہ کس کا بیانیہ تھا کہ انہیں مرکزی دھارے میں لانے سے یہ ملکی ترقی میں کردار ادا کریں گے،قوم اس کا جواب مانگتی ہے،اس بات کی تحقیقات ہوں گی۔ بلاشبہ وزیراعظم نے گفتگو کے دوران کسی سیاسی شخصیت کا نام نہیں لیا لیکن وہ تمام واقعات اور وجوہات تاریخ میں حرف بہ حرف اور لمحہ بہ لمحہ موجود ہیں۔ جب روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی تو جنرل ضیا ء کے دور میں ہم امریکی جنگ میں کود گئے، ہم نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی اور اپنے وسائل میں حصہ دار بنایا، امریکی مفادات کا تحفظ کیا اور روس کے ساتھ بگاڑی حالانکہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات وسعت اختیار کررہے تھے مگر ہم نے روس کے خلاف جنگ میں کود کر دوسری بار غلطی کی قبل ازیں ہم روسی دعوت کو مسترد کرکے امریکی دعوت پر سات سمندر پار پہنچ گئے تھے مگر سیاسی قیادت نے بروقت غلطی کا احساس کیا اور روس کے ساتھ تلخیوں کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ابھی اِن کوششوں کے مثبت نتائج برآمد بھی نہ ہوئے تھے کہ روس نے افغانستان پر چڑھائی کی اور ہم امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی بنا پر روس سے دور ہوگئے۔ پس روس تو واپس چلاگیا لیکن افغانستان کو بھی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ، ایک طرف افغان عوام قابل رحم زندگی بسر کررہے تھے تو دوسری طرف جنگ کے دوران ہجرت کرکے پاکستان آنے والے افغان خاندان واپس جانے کو تیار نہ تھے، لہٰذا آج اُن کی تیسری نسل پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے اور ہم انہیں باعزت رخصت بھی نہیں کرپارہے۔روس افغان جنگ کے باعث وطن عزیز میں کلاشنکوف، منشیات اور ایسی ہی کئی برائیاں اور مسائل نے جنم لیا مگر ہم خاموش تماشائی کے طور پر سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے،مگر امریکہ میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی تبدیلی کی اور نیٹو کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تب بھی ہمیں امریکہ کے اتحادی کے طور پر کردار ادا کرنا پڑا، اگرچہ پرویز مشرف بارہا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے ہمیں اِس جنگ میں اتحادی نہ بننے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی مگر پھر بھی مختلف مکاتب فکر اور بعض سیاسی شخصیات جن میں چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نمایاں ہیں، ہمیشہ سے اِس موقف پر قائل رہے کہ ہم نے افغانستان کے معاملے پر امریکہ کا ساتھ دے کر بدامنی خریدی ہے۔ امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ
کرنے کے لیے آئی تھی لہٰذا اِن کی براہ راست جنگ افغان طالبان سے تھی جو کبھی روس افغان جنگ کے دوران امریکہ کو ہردلعزیز تھے مگر اِس بار امریکیوں کی جنگ افغان طالبان سے تھی، چونکہ ہمارے قبائلی علاقہ جات ہمیشہ اپنے رسم و رواج اور تعلقات کے معاملے پر ہمیشہ آزاد رہے ہیں لہٰذا وہ بھی امریکیوں کے خلاف افغان طالبان کے ساتھ جنگ میں کود پڑے پس امریکہ کو موقعہ مل گیا کہ وہ پاکستانی حدود میں بمباری کرے جو امریکیوں نے ڈرون حملوں اور میزائلوں کی بارش کی صورت میں کی مگر بیس سال کی طویل جنگ میں غیر اعلانیہ شکست سمیٹ کر امریکہ اور نیٹو افواج تو واپس چلے گئے مگرجاتے جاتے ایک بار پھر افغانستان اور افغان عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے جیسے قبل ازیں روسی افواج کے انخلا کے بعد چھوڑا تھا۔ پاکستان سے گذرکر افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی کے خلاف بھی عوام کی اکثریت کا موقف تھا کہ یہاں سے نہیں ہونی چاہیے مگر چاہ کر بھی وہ سب کچھ کرنا پڑا یا ہواجس کے نتیجے میں پاکستان کا امن دائو پر لگ گیا،بلاشبہ ہمیں پرائی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا مگر کیا ہم امریکہ کو یہی کرارا جواب دے سکتے تھے؟ پس امریکہ کا ساتھ دینے پر ہم بھی حملوں کی زد میں آگئے اور بیس سال تک وہ جنگ لڑتے رہے جو امریکہ اور افغانستان کے مابین تھی، چونکہ ہم امریکہ اور نیٹو کا ساتھ تھے لہٰذا ہمارا دہشت گردی کی لپیٹ میں آنا یقینی تھا۔ سابقہ حکومت کے دور میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کی مسلح تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تاکہ مسلح افراد آئین و قانون کے دائرے میں آجائیں، کچھ لوگوںنے رضا کارانہ طور پر بھی ہتھیار ڈال دیئے تھے مگر جنہوں نے لڑائی اور اپنی حاکمیت کو مقصد بنالیا تھا وہ اپنی ہی ریاست کے خلاف مورچہ زن ہوگئے اور ملک دشمن طاقتوں کا آلہ کار ہونا اِن کی پہچان بن گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں جو جنگ نائن الیون کے نام پر شروع ہوئی تھی اُسی نے ہمیں سب سے زیادہ غیر مستحکم کیا ہے ،سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہم نے بھگتا، پھر ان دہشت گردوں سے امن مذاکرات کی باتیں ہوئیں ۔ بہرکیف وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پشاور دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے خراسانی گروپ نے قبول کی ہے اورآئی جی خیبرپختونخوا نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ پولیس لائنز میں قائم گھروں میں سے کسی سویلین رہائشی نے خودکش بمبار کے لیے سہولت کاری کی تاہم ابھی اس کی تحقیقات جاری ہیں۔بہرکیف دہشت گردی کے اسباب بخوبی جاننے کے بعد ہمیں اِس عفریت کا مقابلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے ، اگرہم اسی جذبے اور اسی پالیسی کے تحت آگے بڑھیں گے جو سانحہ اے پی ایس کے موقع پر بنائی گئی تھی تو یقیناً دہشت گردی کا قلع قمع ہوگا مگر ضروری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں اور تلخ تجربات کو مدنظر رکھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button