ColumnNasir Naqvi

آدھا انسان .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

آدم زادے خواہ کتنے ہی دعوے کریں حقیقت یہی ہے کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساںہونا، اقتدار اور اختیار کبھی بہکا دیتا ہے تو کسی وقت طاقت و غرور رکاوٹ بن جاتا ہے اور ایسا بھی اکثر ہوتا ہے کہ اللہ مہربان ہو تو کھوتا بھی پہلوان ہو جاتا ہے یعنی مال و دولت بھی جینے کے ڈھنگ اس طرح تبدیل کرتا ہے کہ بندہ اپنی اوقات ہی بھول جاتا ہے۔ ایسے مناظر اس فانی دنیا میں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتے ہیں، عوامی جمہوریہ پاکستان کی بات بھی نرالی ہے یہاں جمہوریت میں آمریت کا رنگ دکھائی دیتا ہے تو آمریت میں جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی انتخابات سے جمہوریت کی مہک پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم مملکت پر جنرل ضیاء الحق نے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی، امریکہ بہادر کی چاکری میں جہاد افغانستان اور اسلام کے نام پر ایسے وار بلکہ وارداتیں کیں کہ ہماری تاریخ ہی الٹ پلٹ ہو گئی۔ ہر آمرانہ دور میں ڈالروں کی مصنوعی بارش ہوئی، معاملات میں بھی بہتری ہوئی۔ عام آدمی کی قوت خرید بھی بڑھی،آج جیسی مہنگائی تھی نہ ہی بے روزگاری، لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ یہ بین الاقوامی ایجنڈے پر ایسا نظر کا دھوکا تھا جس کے مضر اثرات سے آج کے حالات نے جنم لیا، ان ادوار کے ظلم و جبر نے بہت سے قدآور انسانوں کو آدھا کر دیا اور اَن گنت لوگوں کو فرش سے عرش پر پہنچا دیا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس ساری مشق میں ہمارے سیاستدان اور اعلیٰ شخصیات سہولت کار بنے رہے جبکہ تختہ مشق بھولی عوام تھی، مرد حق ضیاء الحق نے اپنے مارشل لائی ڈنڈے کا زور دکھایا تو کچھ نے قسمت سمجھ کر سر تسلیم خم کر لیا اور جن میں کوئی دم خم تھا وہ ہمت کر کے ملک سے دور چلے گئے۔ ان جلاوطنوں میں بھی دو قسم کے لوگ تھے ایک جو حالات سے گھبرا کر خود جلاوطن ہو گئے اور دوسرے وہ جنہیں الذوالفقار کے طیارہ اغواء کیس میں جنرل صاحب نے طیارہ بھر کر زبردستی ملک سے باہر بھجوا دیا تھا۔ ڈیمانڈ کے مطابق جنہیں ملک سے باہر بھیجا گیایا جو خو د گئے اس وقت سب کے سب خوشحالی کے باعث پورے انسان ہیں جبکہ وطن عزیز میں رہنے اور حالات کا مقابلہ کرنے والے برسوں بعد بھی کسی نہ کسی لحاظ سے ’’آدھا انسان‘‘ ہی تصور کئے جاتے ہیں لیکن ترقی پسند صحافی رشی خاں کی لغت میں محرومیوں اور نامساعد حالات سے نبرد آزما لوگ آدھے انسان ہیں بلکہ وہ آدھا انسان کسے کہتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کریں ’’کوئی بھی عورت اپنی ذات میں صرف عورت ہے اور کوئی بھی مرد محض مرد۔ جب دونوں ایک ہو جاتے ہیں یا ایک میں ہو جاتے ہیں تو انسان مکمل ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ ارشاد انہوں نے اپنے افسانوں اور کہانیوں کے مجموعہ ’’آدھا انسان‘‘ کے سرورق پر زینت بنایا ہے۔
رشی خاں ان دنوں جرمنی برلن سے حقیقی وطن عزیز پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ جرمنی کو وطن ثانی قرار دیتے ہیں۔ ان کا حقیقی نام رشید احمد خاں ہے۔ ان کی بہت سی تصانیف شائع ہو چکی ہیں تاہم افسانوں اور کہانیوں کا مجموعہ ’’آدھا انسان‘‘ تازہ ترین ہے۔ حضرت کا دعویٰ ہے کہ مطالعہ، مشاہدہ، مکالمہ، مجاہدہ، مکاشفہ، مشق سخن اور زندگی سے آنکھ مچولی ان کے مشاغل ہیں،لیکن افسانہ، ناول، کہانی اور شاعری پسندیدہ ہیں۔ موصوف ستر کی دہائی میں شعبہ صحافت میں وارد ہوئے اور اپنی ترقی پسندی اور روشن خیالی میں قریباً مادر پدر آزاد پائے گئے۔ مختلف رسائل سے وابستہ رہے جن کا معیار اس قدر اعلیٰ اور منفرد ہوا کرتا تھا کہ وہ عوامی دور میں بھی منشیات کی طرح اس لیے فروخت کئے جاتے تھے کہ اس کا مواد خصوصاً تصاویر قابل اعتراض اور اخلاقی حدود کے باغی ہوا کرتی تھیں۔ بھائی فوج میں کرنل تھے۔ اسی لیے بچ بچا ہو جاتا تھا۔ پھر
جنرل ضیاء الحق نے شب خون مارا اور یہ معاملات اسلام اور اسلامی معاشرے کے چکر میں بگڑ گئے۔حکومت نے اخلاق باختہ رسائل کو نئی نسل کیلئے زہر قاتل قرار دے دیا۔ لہٰذا موصوف انڈر گرائونڈ ہو گئے لیکن صحافت تو ہر حال میں کرنا چاہتے تھے لہٰذا شفت محسن چودھری کے اخبار ’’صدائے وطن‘‘میں ڈپٹی ایڈیٹر کی خدمات انجام دینے لگے۔ چودھری صاحب ترقی پسند اور سرخے تو نہیں تھے لیکن مارشل لاء اور جنرل ضیاء الحق کے حامی نہیں تھے۔ جواں سال چیف ایڈیٹر شفقت محسن بہت جذباتی تھے۔ ایک روز عید سے قبل انہوں نے ’’صدائے وطن‘‘ کی سرخی لگائی ’’عید کا تحفہ کیا چاہیے، ضیاء الحق کا سر چاہیے‘‘ ۔ بس خفیہ اداروں نے کارروائی دکھائی، الصبح بیٹی کی پیدائش کی خوش خبری سن کر گھر پہنچے توسفید پوش افراد نے ان کا استقبال کیا اور خاطر تواضح کے لیے ساتھ لے گئے۔ دوسری جانب ’’صدائے وطن‘‘ بلیک میں بکا لیکن پریس بھی سیل کر دیا گیا اور تمام عملے کی گرفتاری کے احکامات جاری ہو گئے جن میں ’’رشی خاں‘‘ کی ماضی کی فائلز بھی کھل گئیں۔ اس اطلاع پر پہلے روپوش ہوئے پھر لاہور سے پشاور، وہاں سے علاقہ غیر اور سرحد پار کر کے افغانستان ، ان کے ساتھ ایک ’’مشین مین‘‘ بھی ہم سفر تھا۔ دونوں اچھے بْرے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جرمنی پہنچے اور پھر جرمنی کے ہی ہو گئے جبکہ شفقت محسن چودھری ایک سال تین ماہ کیمپ جیل، سنٹرل جیل کوٹ لکھپت اور ساہیوال جیل میں بی کلاس کے مزے لیتے رہے۔ ممتاز صحافی خالد چودھری بھی اپنی ترقی پسندی، مارشل لاء مخالفت اور پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالے کی حیثیت سے ساتھ ہی قید تھے۔
رشی خاں کے افسانوں اور کہانیوں کے مجموعہ ’’آدھا انسان‘‘ کی گزشتہ دنوں پاک ٹی ہائوس اور دیال سنگھ کالج لاہور میں دو تقاریب ہوئیں۔ تخلیق کار کے جذبات، احساسات اور ترقی پسندی کا اندازہ اس تحریر سے لگایا جا سکتا ہے جو کتاب کے صفحہ اول پر ’’گزارش‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔
’’یہ افسانے اور کہانیاں۔۔نابالغ اور تنگ نظر قارئین کے لیے نہیں ہیں۔۔کمزور ایمان خواتین و حضرات کو بھی ان سے دور ہی رہنا چاہیے۔۔جو لوگ خواتین کو برابری کے حقوق دینا گناہ سمجھتے ہیں وہ بھی اس کتاب کو پڑھنے سے پرہیز کریں۔‘‘
اسی طرح اس ’’آدھا انسان‘‘ کا انتساب بھی آپ کی نذر ہے:
’’ ان تمام عورتوں اور مردوں کے نام، جنہوں نے کسی بھی زمانے میں، دنیا کے کسی بھی کونے میں، زندگی کے کسی بھی دور میں، کسی بھی شکل میںخواتین کے لیے مساوی حقوق کے حصول کی کوشش کی ہے۔‘‘
بقول رشی خاں سترہ سال کی عمر میں فنون لطیفہ کے طلسم میں گرفتار ہو گئے تھے۔ جنرل ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، جانا انجینئرنگ کے شعبہ میں چاہتا تھا لیکن طبیعت فنون لطیفہ کی طرف راغب ہوئی تو کچھ نہیں کر سکا۔اب تک ٹی وی، ریڈیو، سٹیج ڈرامے، افسانے اور کہانیاں اور ناول لکھ چکے ہیں۔ ’’آدھا انسان‘‘ میں افسانوں اور کہانیوں کے ساتھ مختلف صفحات پر خان صاحب کے ارشادات بھی درج ہیں جو یقیناً متاثر کن ہیں۔
’’سوچ کے انداز‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں جب تک یہ سوچتا رہا کہ زندگی نے مجھے کیا دیا؟ ہمیشہ مایوسی میں گھرا رہا لیکن جب سے میں نے خود سے پوچھنا شروع کیا کہ میں نے زندگی کو کیا دیا؟ تب سے زندگی بہت پیاری لگنے لگی ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ’’اگر کسی شادی کی بنیاد، صرف ظاہری خوبصورتی، سماجی رتبہ، دھن دولت یا وقتی جذبہ ہو گا تو اس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں گے اور اگر دونوں فریقین ایک دوسرے کو اس کا جائز مقام دینے، دوسری کی فطری صلاحیتوں کا اعتراف کرنے اور اسی بنیاد پر واجب تحسین کے لیے تیار ہوں تو ظاہری، خوبصورتی، سماجی رتبہ اور دھن دولت کے کمی کے باوجود خوش بختی ان کے قدم چومے گی۔ رواداری، بردباری اور احساس ذمہ داری بھی ساتھ شامل ہو جائیں تو وہ مثالی زندگی گزاریں گے۔
اس قدر مثبت اور خوبصورت باتوں کے بعد افسانے اور کہانیاں باعث تنقید ہی نہیں اپنے موضوع اور عنوانات کے حوالوں سے ایسی ہیں کہ میں کسی ایک کا تذکرہ کیا’’عنوان‘‘ ضبط تحریر میں نہیں لا سکتا۔ بحیثیت صحافی تحریر سے متفق ہونا میرا ضروری نہیں لیکن رشی خاں صاحب کا کیا مشن ہے اور آغاز سے اپنے انجام تک ’’نسل نو‘‘ کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں مجھے اس میں اخلاقیات کی حدیں پار کرتے ہوئے محسوس ہوئے، ضروری نہیں آپ مجھ سے اتفاق کریں لیکن دیال سنگھ کالج اساتذہ کی جانب سے منعقدہ تقریب پذیرائی کی مخالفت یقیناً میرے احساسات کی ترجمانی ہے۔ میں بھی رجعت پسند نہیں پھر بھی اتنا ترقی پسند نہیں کہ اپنی روایات اور اخلاقیات کو پس پشت چھوڑ دوں، ایک درس گاہ اور میری مادر علمی میں اس ’’آدھا انسان‘‘ رشی خاں اولڈ بوائے کی پذیرائی مجھے تو باعث ندامت لگی۔ لاہور کے ایک معروف ادارے ’’سانجھ‘‘ نے اسے بڑے خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے لیکن اس میں جو کچھ ہے وہ ہماری اور اس سرزمین کی سانجھ ہرگز نہیں۔ کاش پبلشر ’’آدھا انسان‘‘ کے آخری صفحے پر صحافتی روایتی جملہ لکھ دیتے کہ تخلیق کار سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں تو شاید یہ کہانیاں اور افسانے قابل قبول ہو جاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لکھاری اور قلم کی حرمت اور تقدس کی روایات کو پامال کر کے داد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادبی دنیا میں بہت کچھ اچھا، بُرا موجود ہے لیکن میرے خیال میں اچھا ادب وہی ہے جس میں تمام تر معاملات کو آداب اور الفاظ کا پہناوا دیا جائے۔ تحریر گراں گزرے تو ایڈوانس معذرت خواہ ہوں لیکن یقین جانئے ابھی میں نے کچھ نہیں لکھا، کتاب گھر لے گیا ہوں لیکن اسی طرح پوشیدہ رکھی ہے جیسے زمانہ طالب علمی میں ان کے رسائل والدین سے چھپا کر رکھتا تھا آج ماں باپ تو نہیں لیکن بچوں سے چھپا رہا ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button