ColumnImtiaz Aasi

ایک نئی مشکل .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ہمارا ملک معاشی طور پر پہلے ہی گرداب میں ہے کہ دوست ملک ایران نے بھی ہمیں دھمکا دیا ہے۔ مسلمانوں کی بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ ہمارا ملک کسی سے تیل اور گیس کی درآمد کے حصول کے لیے معاہدہ کرتا ہے تو امریکی پابندیاں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان اور ایران کے درمیان تہران میں گیس کی درآمد کا معاہدہ طے پایا تو ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن بہت کم وقت میں بچھا دی جب کہ ہم اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانے میں ناکام رہے ہیں۔تعجب ہے کہ پاکستان کوئی شے درآمد کرنے کا معاہدہ کرتا ہے تو اس ملک پر امریکی پابندیاں لگ جاتی ہیں اور ہم ان چیزوں کی درآمد سے محروم رہ جاتے ہیں جن کی ہمیں اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس وقت ہمیںتیل اور گیس کی اشد ضرورت ہے خاص طور پر گیس کے ذخائر بڑی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جبکہ گیس کی پیداوار ضرورت سے بہت کم ہے۔
بعض ذمہ دار ذرائع کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان گیس کی درآمد کا یہ معاہدہ امریکہ کی ایماپر ہی طے پایا تھا جو بعدازاں امریکی پابندیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔پاکستان کو معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں تین لاکھ ڈالر یومیہ ایران کو جرمانہ ادا کرناپڑے گا۔ ایران ایک عشرے سے زیادہ وقت گذرنے کے باوجود مروت میں جرمانے کی رقم کا مطالبہ نہیں کر رہا تھا۔گذشتہ ماہ ایک پاکستانی وفد تہران کے دورے پر گیا تو ایران نے واضح طور پر کہہ دیا ہے اگر اس معاہدے پر اگلے سال فروری مارچ تک عمل درآمد نہ ہوا تو پاکستان کو اٹھارہ کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرناپڑے گا۔
پاکستان ،تہران اوربھارت کے مابین اسی نوعیت کا ایک معاہد ہ اس سے پہلے بھی ہوا تھا جس میں پائپ لائن نے پاکستان سے گذر کر بھارت جانا تھی جس کی پاکستان کو رائلٹی ملنا تھی وہ معاہدہ جوں کا توں ہے۔چنانچہ 2010 میں دونوں ملکوں کے درمیان گیس کے حصول کا نیا معاہدہ طے پایا کیونکہ اس وقت تک ایران پر امریکہ پابندیاں نہیں تھیں۔ پاکستان اور روس کے درمیان 2014 میں گیس پائپ لائن کا معاہد ہوا جس کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن لائی جانا تھی بدقسمتی سے اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔تحریک انصاف کے دور میں سابق وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ کرکے گیس پائپ لائن کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو امریکہ کو ان کا یہ دورہ ناگوار گذرا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ حکومت نے روس سے توانائی کا معاہد ہ کرنے کی ٹھان لی۔ ایک پاکستانی وفد وزیرمملکت مصدق ملک کی سربراہی میں روس بھیجا جس نے دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کے حصول کا معاہدہ کرنے کی ابتدائی بات چیت مکمل کی جس کے بعد حال ہی میں روسی وفد نے پاکستان کا دورہ کرکے معاہدے کو حتمی شکل دی جس کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے ۔
روسی وزیرخارجہ کے تازہ ترین بیان سے ہمیں دھچکا لگا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کہیں دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔سی پیک دیکھ لیں جس تیز رفتاری سے اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا تھا اب اس رفتار سے کام نہیں ہو رہا ہے۔ ریکوڈک کا معاملہ سب کے سامنے ہے آسٹریلوی کمپنی نے معاہدے پر عمل درآمدکرنے میں ناکامی پر بین الاقوامی ثالثی عدالت نے چھ ارب ڈالر پاکستان پر جرمانہ عائدکر دیا۔چلیں یہ اچھا ہوا عمران خان کے دور میں اسی کمپنی کو ریکوڈک منصوبے کی ذمہ داری دینے سے ہمارا ملک اربوں ڈالر جرمانے سے بچ گیااور ریکوڈک پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔
دراصل ہمارا ملک اپنے قیام سے اب تک بین الاقوامی سازشوں کا شکار رہا ہے۔مسلمانوں کے دشمن کسی طریقہ سے ہمیں پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔ پاکستان نے اٹیمی دھماکے کئے تو ہم امریکی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہو گئے جس کے نتیجہ میں پاکستان نے غیر ملکی کرنسی میں تمام اکاونٹس منجمد کر دیئے۔درحقیقت ہمیں دوست اور دشمن کی تمیز نہیں ہے ۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت اس وقت چاروں طرف سے ہنوز اور یہود کے گھیرے میں ہے۔اسلام دشمن قوتوںکو پاکستان کی ترقی پسند نہیں ۔جب ملکی ترقی کا کوئی معاملہ آتا ہے تو اسلام دشمن طاقتیں راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ایک طرف ہمیں اسلام دشمن قوتوں نے گھیر رکھا ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں اور ذمہ داروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔عمران خان نئے انتخابات کے مطالبے سے ایک قدم ہٹنے کو تیار نہیں حالانکہ ہماری معاشی مشکلات کا انتخابات ہی حل نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں جن سے نبرآزما ہوکر معاشی بھنور سے نکل سکتے ہیں۔ ہمیں ملک کو معاشی تباہی سے بچانا ہے تو تمام سیاست دانوں کو خواہ ان کا تعلق کسی جماعت سے ہو انہیں فراخدلی سے اپنے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں سے کچھ نہ کچھ نکال کر ملک کو عطیہ کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک کسی طریقہ سے معاشی گرداب سے نکل سکے۔ایک اردو معاصر کے سنیئر کالم نگار اور سابق بیورو کریٹ جناب اظہار الحق کی یہ تجویز ہمیں بہت پسند آئی ہے تمام سیاست دانوںاور امراء طبقے کو کچھ نہ کچھ رقم ملک کو دے کرملک اور قوم کی مشکلات کم کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔حکمرانوں اور سمجھ داروں کو سوچنے کی ضرورت ہے ہمیں معاشی طورپر دیوالیہ کرنا کسی گیم پلان کا حصہ تو نہیں؟جب تک ہماری حکومتیں اپنے غیر ضروری اخراجات میں کمی اوردرآمدات میں بہت حد تک کمی اور برآمدات میں اضافہ نہیںکرتیں ہمیں معاشی مشکلات سے کوئی نہیں نکل سکتا۔ترقی کے معاملے میں بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے کہیں دور نکل چکے ہیں اور ہم قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔سیاست دانوں کو بس اپنے اپنے اقتدار کی پڑی ہے اللہ کے بندوں ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔موجودہ معاشی صورت حال میں ہم نے اپنے آپ کو نہ بدلہ تو تباہی ہمارا مقدر ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button